en-USur-PK
  |  
04

منجی عالمین کی آمد کے زمانہ میں یونانی رومی دنیاکا مذہبی پس منظر

posted on
منجی عالمین کی آمد کے زمانہ میں یونانی رومی دنیاکا مذہبی پس منظر

منجی عالمین کی آمد کے زمانہ میں یونانی رومی دنیاکا مذہبی پس منظر

اساطیر الاولین

Background of Greek and Roman Religions

In the Time of Jesus Christ

Rev. Allama Barakat Ullah

                        منجئی عالمین سیدنا مسیح کی پیدائش سے پہلے ایک سوسال سے سلطنت  روم میں تنزل، واقع ہوتا چلا آتا تھا۔ سلطنت تووسیع ہوگئی تھی۔ لیکن رعایا کی اخلاقی اورمذہبی حالت دن بدن ابتر ہوتی جاتی تھی۔ خانہ جنگی،کشت وخون ،قتل وغارت ،رشوت خوری اوراخلاق سوز حرکات کا ہرجگہ دور دورہ تھا۔فال گیری ، خوابوں کی تعبیر ، نیک وبدن شگون اوردیگر توہمات کی لہر ہرچہار طرف پھیل گئی تھی۔بے شمار دیوی،  دیوتاؤں کے مندر ،خاندانی دیوتاؤں کے گھر قسمت کی دیوی کی پوجا، دیوتاؤں کے  آگے قربانیاں کرنا، ہوا کے دیوی ،دیوتا درختوں اور کنوؤں کے دیوتا اورقدرتی مناظر واشیاء کے دیوی، دیوتا ہرخاص وعام رومی شہری کے دل ودماغ میں بستے تھے۔ ہرجگہ دیوی دیوتاؤں سے بھری پڑی تھی۔ جن کے خوف سے رومیوں کی جانیں تھر تھراتی تھیں۔ اور اُن کو خوش کرنےکی خاطر خونیں قربانیاں،منتیں وغیرہ گزارنی جاتی تھیں۔قیصر آگستس (جس کے زمانہ میں منجئی عالمین پیدا ہوئے ۔ لوقا ۲: ۱)نے مفتوح اقوام  کی لوٹ کا مال مشرکانہ مذاہب وروایات کوفروغ دینے کی تعداد اوراُن کے وظائف بڑھادئیے ۔ اورقدیم رومی مذہب کی رسوم وروایات کوازسر نوع زندہ کردیا تاکہ سلطنت کا اخلاقی انحطا رک جائے۔ چنانچہ پولوس رسول رومی سلطنت کے بے شمار معبودوں کی طرف اشارہ کرکے اپنے نومریدوں کوکہتاہے" اس وقت خدائے واحد ناواقف ہوکر تم اُن معبودوں  کی غلامی میں تھے جواپنی ذات سے خدا نہیں"(گنتی ۴: ۸)۔ ہم نے اپنی کتاب" نورالہدیٰ"  بجواب "ینابیع المسیحیت " میں مشرکانہ معبودوں ،رسموں اور روائتوں  پر مفصل  دوجلدوں میں لکھا ہے۔ لہذا ہم اس موضوع کوطول نہیں دیتے ۔

مشرکانہ مذاہب اور گناہوں کی مغفرت

          یونانی رومی دنیا کے غیر یہود ممالک واقوام کے بیشمار مبعود تھے۔(۱کرنتھیوں۸: ۴تا ۶)۔ لیکن وہ معبود کلمتہ اللہ کےخدا اورباپ کے ساتھ دورکا واسطہ بھی نہیں رکھتے تھے ۔ اُن میں ایک معبود بھی ایسا نہ تھا جس کی محبت کا وہ تقاضا ہو جوخداباپ کی محبت کا تقاضا تھا۔ حالانکہ ان میں بعض" نجات دینے والے" کہلاتے تھے۔ لیکن کسی کی محبت کا یہ تقاضا نہ ہوا کہ وہ اپنے گنہگار،عابدوں اور اُن کے گناہوں سے اورگناہوں کی طاقت اورگرفت سے رہائی دلاکر اُن کوگناہوں کےزبردست پنجہ کی غلامی سے خلاصی بخشے۔ دنیا بھر کے مذاہب میں یہ صرف انجیل کی تعلیم کا ہی خاصہ تھا۔ وہ علی الاعلان کہتی تھی کہ خدا باپ کی محبت  ہرگنہگار کی نجات کا تقاضاکرتی ہے۔اوراس کی تلاش میں تڑپتی ہے کیونکہ وہ اپنے گنہگار فرزندوں  سے بھی جدائی کوبرداشت نہیں کرسکتی۔ اوربدترین گنہگار کی جدائی بھی اُس پر شاق گذرتی ہے۔ پس خدا کی محبت بے چین اوربے قرار رہتی ہے جب تک  اُس کا گم گشتہ فرزند الٹے پاؤں واپس لوٹ کر اُس کی فرزندیت کے رشتہ کی آغوش میں آرامِ جاں حاصل نہیں کرتا۔ان غیر یہود اقوام کے بہتیرے "مقتول" اور"شہید"  تھے۔ لیکن اُن میں ایک بھی معبود ایسا نہ تھا جس نے اپنے عبادت گزاروں کی محبت کی وجہ سے شہادت پائی ہویا اُن کی خاطر اپنی جان قربان کردی ہو۔

          منجئی جہاں کی صلیبی موت کے تیس سالوں کے اندر انجیل کے مبشر دنیا کے ہرملک کے باشندوں میں اس خوشخبری کا اعلان کرتے تھے کہ " جب ہمارے نجات دینے والے خدا باپ کی مہر اورمحبت ظاہر ہوئی جووہ انسان کے ساتھ رکھتا ہے تواُس نے ہم کونجات بخشی۔مگریہ نجات ہماری کسی راستبازی کے اُن نیک اعمال کے سبب سے نہیں جو ہم نے خود کئے تھے۔ اسکے برعکس یہ نجات ہمارے منجئی خدا کے اپنے رحم وفضل کے مطابق ہم کو ملی جس کے ذریعہ ہم نئے مخلوق بن گئے"(طیطس ۳: ۴)۔ سیدنا مسیح کی نجات کی بشارت دینے کہتے تھے کہ" تم ہمارے آقا ومولا سیدنا عیسیٰ مسیح کے فضل کو جانتے ہو کہ  وہ اگرچہ دولت مند تھا لیکن تمہاری خاطر غریب بن گیا تاکہ تم اُس کی غریبی سے دولت مند بن جاؤ۔ تم ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح کا تھا۔ وہ خدا کی صورت پر تھا۔ مگر اُس نے خدا کے برابر ہونے کوقبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا بلکہ اُس نے اپنے آپ کو ایسا خالی کردیا کہ اُس نے خادم اورعبد کی صورت اختیار کرکے ہم جیسے انسانوں کے مشابہ ہوگیا۔اُس نے انسانی شکل میں ظاہر ہوکر اپنے آپ کو ایسا پست کردیا اوریہاں تک فرمانبردار رہا کہ اُس نے موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی"(فلپیوں ۲: ۸)۔

          انجیل کے پیامبروں کے سے پیام اوراعلان پہلی صدی کے غیر یہود مشرکانہ مذاہب میں تھے ہی نہیں بلکہ یہودی اورغیر یہودی حلقوں میں بھی یہ ایک نئی صدا تھی کہ خدا گنہگار سے محبت کرتاہے۔اوراس صدا کی للکار دوسری صدی تک اقصائے عالم میں گونج اٹھی اوراُس نے ہر ملک وقوم کے گنہگاروں کوچونکاکر چوکنا کردیا کیونکہ ان مذاہب میں ایک بھی مذہب ایسا نہ تھا جس میں خدا کا یہ تصور پایا جاتا ہوکہ وہ نجات دینے والا خدا ہے۔ جس کی ذات محبت ہے۔ جوعالم بالا سے صرف ایک مقصد کی خاطر دنیا میں آیاکہ گنہگار انِ عالم کی روحوں جوقعرمذلت وبدی سے نکال کر اوج بریں پر پہنچادے۔

اے زخیال مابروں، درتوخیال کئے رسد!

درصفت توعقل را، لافِ کمال کئے رسد!

کنگرکبریائے تو،ہست فراز لامکاں

طائر مادرآں ہوا، بے پردبال کئے رسد؟

          اس قسم کی محبت کے خدا کا مذہب نہ توقدما کا مذہب ۔۔۔۔۔۔۔تھا اورنہ یونانی رومی کے عالم وجاہل اورفلاسفر اس قسم کے خدا سے کبھی واقف ہوئے۔ جوگنہگار انسان سے ازلی اورلازوال محبت کرتاہو۔ یہاں تک کہ انسان کے دکھوں میں اُن کے ساتھ محبت رکھنے کی وجہ سے اُن کا برابر کاشریک ہوا۔ چنانچہ ارسطو کا ایک باکمال شاگرد جوخودبھی بڑے پایہ کا فلاسفر تھا۔لکھتاہے " بعض لوگ یہ خیال کئے بیٹھے ہیں کہ خدا سے محبت اوردوستی کا رشتہ حقیقی طورپر مکمل ہوسکتاہے۔ یہ محض خام خیال ہے کیونکہ محبت کا وجود یہ تقاضاکرتاہے کہ۔ دونوں طرف ہوآگ برابر لگی ہوئی۔ اگربالفرض یہ بھی نہ ہو توکم از کم دونوں کے درمیان کچھ پیار توہو۔ لیکن ظاہر ہے کہ خدا اورانسان کے درمیان پیارومحبت کے رشتہ کا تصور ہی مہمل اورفضول اورلغو ہے۔ پس خدا سے پیار ومحبت کرنے کا خیال سرے سے باطل اورناممکن ہے[1]

اہل یہود کا مذہبی پس منظر

          اہل یہود کی کتب سے ظاہر ہے کہ قوم اسرائیل کی ابتدائی تاریخ میں اس کے ارد گرد کوئی اقوام وقبائل  مثلاً عمونی، صیدانی، موآبی وغيرہ وغیرہ یہود اقوام بستی تھیں۔ جن کے متعدد معبود تھے۔ مثلاً کموس (گنتی ۱۱: ۱۹)،مولک ، ملکوم، عستارات بعل وغیرہ جوخاص طورپر کسی ایک قبیلہ یا قوم کے معبود تھے۔ قوم اسرائیل کا بھی ایک قبائلی معبود ایل تھا جوفقط اسرائیل کا ہی معبود ومحفاظ تھا۔ جس طرح غیراسرائيلی قبائل کے معبود اپنے اپنے قبیلہ کے محافظ معبود تھے (قضات ۱۱: ۲۴ وغیرہ) ان معبودوں کے بھی کاہن اورقربان گاہیں وغیرہ تھیں اوراسرائيلی قبائل اپنے معبود ایل کے متعلق کم وبیش وہی اعتقاد رکھتے تھے جواُن کے ہمسایہ اقوام اپنے دیوتاؤں کے بارے میں رکھتی تھیں۔

          حضرت موسیٰ کی بعثت کا زمانہ آیا تواُس نے قبائل اسرائيلی کی شیرازہ بندی کی اوردوازدہ قبائل کوشیر وشکر کرکے ایک واحد قوم بنی اسرائیل بنادیا۔حضرت موسیٰ نے ان کو یہ تعلیم دی کہ اُن کا معبود صرف ایک اورواحد معبود  یہوواہ ہے جوتمام اقوام کا خالق ومالک ہے۔ اُس نے اُن کو احکام عشرہ دئیے جن میں پہلے دوحکم یہ تھے "میں یہوواہ تیرا واحد خداوند اورخدا ہوں۔ میرے سوا توکسی کومعبود نہ ماننا۔ تواپنے لئے نہ تومیری اورنہ کسی اوردیوتا کی مورت بنانا۔اورنہ کسی ایسی چیز کی صورت بنانا جواوپر آسمان یا نیچے زمین یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ تو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا کیونکہ میں یہوواہ تیرا خداوند غیور خدا ہوں۔اورمجھ سے عداوت رکھتے ہیں اُن کو اوراُن کی اولاد کوتیسری اورچوتھی پشت تک اُن کے باپ دادا  کی بدکاری کی سزا دینے والا خدا ہوں۔ اورہزاروں پر جومجھ سے محبت رکھتے ہیں اورمیرے حکموں کومانتے ہیں رحم کرتاہوں"۔ (خروج ۲۰: ۲تا ۶)۔خداوند خدائے رحیم اورمہربان ہے۔ وہ قہر کرنے میں دھیما، اورشفقت ووفا میں غنی ہے۔ ہزاروں پرفضل کرنے والا اورگناہوں ،تقصیروں اورخطاؤں کا بخشنے والا ہے۔ لیکن وہ مجرم کوہرگز بری نہ کرے گا بلکہ باپ دادا کے گناہوں کی سزا اُن کے بیٹوں اورپوتوں کوتیسری اورچوتھی پشت تک دیتا ہے۔(خروج ۳۴: ۶۶تا ۷)۔ "خداوند تیرا خداوند وفادار خدا ہے جواپنے عہد کی پاسداری کرتاہے اورہزاروں پشتوں تک اپنے عہد پر قائم رہتاہے۔ لیکن جواس سے عداوت رکھتے ہیں اُن کو اُن کے دیکھتے ہی دیکھتے بدلہ دے کر ہلاک کرڈالتاہے۔ وہ دیر نہیں کرتا" تو اُن سب قوموں کو جن کویہوواہ تیرا خدا تیرے قابو میں کردے گا نابود کردینا۔ اُن پر ترس نہ کھانا اورنہ اُن کے دیوتاؤں کی عباد ت کرنا، ۔۔۔۔۔ تو اُن سے دہشت نہ کھانا کیونکہ یہوواہ تیرا خدا تیرے بیچ میں ہے جوخدائے عظیم ومہیب ہے"(استشنا ۷: ۹۔ ۲۱)۔

درگزر گر نہیں کرتا وہ گنہگاروں سے

توتیرا اورکوئی ہوگا خدا اے زاہد

رومی دنیا کا علم وادب وفلسفہ اورانجیل کا پیغام

          جب رومی دنیا کے غیر یہود میں انجیل جلیل کے پیغام کی اشاعت ہوئی تو غیر مسیحی فلاسفر یہ حقیقت توماننے کوتیار تھے کہ" خدا روح ہے"۔ اور" خدا نور ہے"۔ لیکن وہ یہ ماننے کو تیار نہ تھے" کہ خدا محبت بھی ہے۔ جوانجیل کا بنیادی اوراصولی پیغام ہے۔اُن میں اشراقی فلسفہ رائج تھا۔ وہ یہ کوشش کرتے تھے کہ مذہب کو"ازلیت" کے مجرد تصورات مثلاً" خروج" ،ظہور" ،قدرت کے غیر اختیاری عمل" وغیرہ امور سے کسی نہ کسی طریقہ سے متعلق کریں  تاکہ وجد آور طورپر اپنے معبودوں سے رفاقت حاصل کرکے مادہ اورمادیت سے چھٹکارا پائیں ۔ چونکہ خدا کی محبت کے تصور کا دوسر ا رُخ  ایثار اورقربانی ہے۔ وہ خدا کے اس قسم کے تصور کو دورہی سے سلام کرتے تھے۔انجیلی محبت کے تصور کا تعلق جوہر،ذات،  یا ماہیت (Substance) سے نہیں ہے بلکہ اس کاتعلق قدرت عمل اورفاعلیت سے ہے۔ خدا کی محبت کامل ہے اور موثر قدرت وحرکت کا نام ہے۔ جس کا میدان عمل اور حلقہ عمل، کائنات  اور نوع انسانی ہے جواس کی عمل کے مواقع ہیں۔ جن میں خدا کی محبت کی قدرت وقوت ،فاعملانہ اورعاملانہ طورپر کارگر اور اثرانداز ہے۔

          پس یہ فلاسفر اس قسم کے خدا کو ماننا نہیں چاہتے تھے۔ جس کی ذات محبت ہو اورجس کا تعلق انسان کی اخلاقی زندگی اورروحانی زندگی سے ہو۔ اس قسم کا تصور" یونانیوں کے نزدیک بےوقوفی اورکم عقلی تھی۔ اُن کا اعتراض یہ تھا کہ انجیل کی تعلیم  خدا کی محبت کوانسانی زندگی اور اخلاقیات سے نہایت گہرے طورپر مربوط کرتی ہے۔ انجیل کے پیامبر اس کا یہ جواب دیتے تھے کہ خدا محض فلسفیانہ مجرد تصور نہیں ہے۔ جوصرف ہست ہو۔ بلکہ وہ ایک ایسی واحد ہستی ہے جومحبت ہے۔ خدا کی یہ محبت  کلمتہ اللہ سیدنا مسیح کے ذریعہ عالمِ قدم سے عالم حدوث میں نہ صرف نمودار ہوئی بلکہ داخل ہوئی۔ اور اس عالمِ حدوث میں زندگی بسر کرکے اُس نے حادثِ زندگی کو  ایسا پلٹ دیا کہ وہ ابدیت میں شامل ہوگئی۔ (یوحنا ۱: ۱۔ ۱۸۔ ۱یوحنا ۱: ۱- ۴ وغیرہ)۔

          فلسفہ یونان نے نسلِ انسانی  میں اُخوت ومساوات کے رشتہ کا اورکل بنی نوع انسان  سے محبت  کرنے کا درس تودرکنار ،کبھی ذکر تک نہ کیا تھا۔ ان کے معبودوں  کے منظورِ نظر  تھے لیکن وہ بھی صرف ایک حد تک ۔ اُن کے دیوتاؤں کی متلون مزاجی اس بات کی متحمل نہ تھی کہ کوئی شخص دیر تک اُن کا منظور نظر بنا رہے۔ اورپھریہ بھی ظاہر ہے کہ محبت ایک شے ہے اورمنظور نظر ہونا بالکل دوسری شے ۔ ہردوتصورات  میں بعد المشرقین ہے۔ تاریخ دنیا میں پہلی بار یونانی رومی دنیا نے انجیل کے مبشروں  سے یہ حقیقت  سنی کہ خدائے واحد کل بنی نوع انسان کا باپ ہے اورسب  سے لازوال  اورابدی محبت رکھتاہے اورکہ دنیاکے کُل انسانوں پر لازم ہے کہ خدا باپ سے محبت رکھیں۔اورآپس میں ایک دوسرے سے محبت کرکے اُخوت ،مساوات کے رشتہ کو قائم  اوراستوار ۔

          یونانی فلاسفر ارسطو کا ایک شاگرد  لکھتاہے کہ اگرخدا انسان کے مابین محبت کے رشتہ کا بالفرض امکان ہو بھی تب بھی اس قسم کا پیار نہایت محدود پیار ہی ہوسکتاہے۔بڑی سے بڑی بات یہ ہوسکتی ہے کہ یہ پیار اس قسم کا ہوجو کوئی بلند مرتبے والا انسان کسی ادنیٰ سے ادنیٰ فرد سے کرے۔ لیکن دونوں میں برابر کا پیار قطعی ناممکن ہے۔ کیونکہ خدا کا پیار انسان کے لئے اتنا بڑا نہیں ہوسکتا۔ جتنا انسان کا پیار  خدا کے لئے ہوسکتاہے[2]۔ حق تویہ ہے کہ یونان کے فلاسفر اس سوال کوقابل التفات ہی خیال نہیں کرتے کہ خدا انسان سے پیار کرتاہے یا کرسکتا ہے۔ چہ جائیکہ اُن کے فلسفہ میں کلمتہ اللہ کی سی تعلیم ہو۔!! یا گناہ کی گرفت سے آزاد ہونے کا خیال بھی کبھی یونان کے فلاسفر یاعالم کے نزدیک پھٹکا ہو۔ اُن کے فلسفہ کا مرکز علم اورصرف علم ہے! لیکن

بقول ذوق

آدمیت اورشے ہے، علم ہے کچھ اورشے

لاکھ طوطے کو پڑھایا ، پروہ حیوان ہی رہا

یونانی علم وادب اور انجیل کا پیغام

          جس طرح تمام یونانی فلاسفہ کی کتب میں خد کی محبت کا ذکر نہیں پایا جاتا اسی طرح تمام یونانی علم وادب کی کتب میں اوراُن کے اساتذہ کی بلکہ استاد لانام کی تصنیفات  میں خدا کی محبت کا تصورہرجگہ سرے سے غائب ہے۔ ہم کویہ کہیں نہیں ملتا کہ خدا بنی نوع انسان سے ابدی اورازلی محبت رکھتا ہے۔ اس کے برعکس انجیل جلیل کا ہرصحیفہ خدا کی محبت  انسان کے لئے اورانسان کی محبت خدا کے لئے اورانسان کی محبت انسان کے لئے کی تعلیم کاحامل اورعلم بردار ہے۔اُس کے تمام صحیفوں کا سب سے بڑا زور اس بات پر ہے کہ خدا کی ذات محبت ہے اور ہرفردبشر سے ازلی اور ابدی محبت رکھتاہے او ر ہرانسان پر لازم ہے کہ وہ خداوند اپنے خدا کواپنے سارے دل اوراپنی ساری جان اوراپنی ساری عقل سے محبت رکھے"(متی ۲۲: ۳۸)۔ یہی نکتہ سیدنا عیسیٰ مسیح کی انجیل یعنی خوشخبری اورخوشی کی خبر ہے۔ ایسا کرنا" تمام سوختنی قربانیوں اورذبیحوں سے بڑھ کر ہے(مرقس ۱۱: ۳۳)۔



1  Magna Moralia (1208B)

2 Magna Moralia 1238

Posted in: یسوع ألمسیح | Tags: | Comments (0) | View Count: (16504)
Comment function is not open
English Blog