en-USur-PK
  |  
12

روز مرہ کی مسیحی زندگی

posted on
روز مرہ کی مسیحی زندگی

THE EVERDAY CHRISTIAN LIFE

BY FRED MITCHELL

Translated by

I.D.Paraser Asi

1956

مترجمہ

آئی ۔ ڈی ۔ پراسر عاصی

                        میں مسیح کے ساتھ مصلوب ہواہوں۔ اوراب میں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے۔ اورمیں جواب جسم میں زندگی گزارتاہوں توخدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گزارتاہوں ۔ جس نے مجھ سے محبت رکھی اوراپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالہ کردیا۔ (انجیل شریف خط گلتیوں ۲: ۲)۔

          اس عمدہ آیت میں سے جس کواکثر دُہرایا جاتاہے میں صرف اس فقرے کا ذکر کرونگا" اور میں جو اب جسم میں زندگی گزارتاہوں "۔یعنی ہماری روز مرہ کی زندگی۔

          اس فقرے سے پہلے اوراس فقرے کے بعد چند ایک حقیقتوں کا ذکر آیا ہے" میں مسیح کے ساتھ مصلوب ہوا ہوں"۔ یہ پہلی حقیقت ہے جوپس پردہ ہے۔ یہ زندگی کی بنیاد ہے جس کا ذکر مقدس پولوس کررہاہے کہ وہ گزارہاہے اور یہی زندگی اکثر خدا کی مرضی ہوئی تومیں نے اور آپ نے گزارنی ہے۔ اگرہم نے حقیقت میں ایک مسیحی زندگی گزارنی ہے تواس زندگی کی بنیاد بھی اسی حقیقت  پر مبنی ہونی چاہیے کہ ہم مسیح کے ساتھ مصلوب ہوچکے ہیں یعنی ہم گناہ کے اعتبار سے مُردہ ہوچکے ہیں۔

          یہ اب یہ کہنا توبہت آسان ہے اورکسی حد تک عقلی طورپر یقین بھی کیا جاسکتاہے۔ لیکن خدا کی سچائی  کوعقلی طورپر مان لینے سےکبھی بھی کسی رُوح  نے گناہ سے نجات نہیں پائی ۔ اورنہ ہی کسی مُقدس کو فتح بخشی ہے ۔ یہ ضروری توہے کہ خدا کی سچائی  کے بارے میں ہمارا ذہنی تصور دُرست ہوکیونکہ یہ ہی دُرست  ذہنی تصور جب عملی  طور پرتجربے  میں لایا جاتاہے توگنہگار  نجات پاسکتاہے اورہر مقدس جلالی تقدیس  کا نظارہ دیکھ سکتا ہے۔

خودی کو مارنا

            جب ذہن سچائی کوقبول کرلیتاہے۔ توضرور ہے کہ ارادہ یا قوت ارادی سچائی کے تمام تاثرات قبول کرے۔ اورانہی اثرات کا اس وقت مجھے خیال ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم نے صرف یہ نہیں دیکھناہے کہ ہم کنوینشن میں حاضر ہیں اورہم کنونیشن کی تعلیم کو مانتے ہیں بلکہ ہم نے یہ دیکھناہے کہ آیا میری زندگی  ایک ایسی زندگی  ہے جوکہ سچائی کے تمام تاثرات  قبول کئے ہوئے ہے اورکیاہمارے اعمال ان تاثرات کوظاہر کرتے ہیں۔ اورکیامیری زندگی اس زندگی سے وابستہ ہے جوکہ گناہ کے اعتبار سے مُردہ ہو۔ کیا میں خدا کی طاقت  سے ایک صلیبی  زندگی گزارنے کی کوشش کررہاہوں جوکہ گناہ کے اعتبار سے مُردہ ہوچکی ہو۔

          اگریہ حقیقت  ہو توہم یقین جانیں کہ خدا کاروح ہم کو ایسی جگہ ، مقام اور تجربے دکھائیگا  جہاں ہم کو یہ زندگی  عملی طور پر بسرکرکے دکھانی ہوگی۔ گھروں میں دفتر میں دوکانوں اورکارخانوں میں۔ مشن کے کام میں ۔ صلیب کو ثابت کرنے کے بہت سے موقع ہونگے اورخودی کے مارنے کے تجربے ۔ اب اس کامطلب  یہ نہیں ہے کہ ہم نے محض ایک سچائی کوقبول کرلیاہے۔ بلکہ یہ کہ میں نے خدا کی مدد سے اپنے ماحول میں ایک ایسی ہی زندگی گزارنی ہے۔

          اب جب یہ ارادہ کرلیا جائے۔ اوریہ رویہ ہو۔ توپھراگرلوگ ہم کو حقیر جانیں یاہم کو نظر انداز کریں توہم کو کوئی تعجب نہ ہوگا کیونکہ یہ  گناہ کے اعتبار سے مُردہ ہونے کی علامت ہے۔ اگرہم خدا کی پہچان میں اتنی ترقی کرجائیں اورخدا کے کلام کو اس حد تک سمجھ جائیں توپھر اگر کوئی ہماری بے عزتی کرے توہم کوتعجب نہ ہوگا۔ کیونکہ ہم نے اسی کوقبول کیا ہواہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہمارا وطیرہ فاتحانہ ہویاشکست کا۔

          اس کی کوئی بات نہیں کہ ہمارے ساتھ کیا واقع ہوا۔ ہاں ضروری تویہ ہے کہ اُن واقعات میں ہمارا رویہ کیا رہا۔ میرے متعلق کوئی غلط فہمی نہ ہوگئی ہو۔ میں تواس کو بھی قبول کرنے کے لئے تیار ہوں۔کیونکہ اس میں بھی گناہ کے اعتبار سے مُردہ ہونے کا راز ہے۔ اس لئے نہ میں پریشان ہوؤنگا نہ مجھ کو تعجب ہوگا۔ کیا مجھ کو ایذادی جائیگی۔۔میرے خداوند کوبھی ایذا دی گئی اورہم سب کی بھی اذیت ہوگی۔ زندگی کے لئے یا موت کے لئے ۔ بھلائی کے لئے یابُرائی کے لئے جو کچھ خدا نے مقرر یا ہو۔ یا جس کی وہ اجازت دے ۔ ہم اس کوقبول کرینگے۔ یہ تحقیر ہو۔ یا بدگمانی ہو۔ یا اذیت ہو۔ ہم کو یہ قبول ہوگا کیونکہ یہ خدا کی طرف سے مُقرر ہے۔ اورہماری فتح اس میں ہے کہ ہم ایسے موقعوں پر مرنا سیکھیں۔

"مرنا سیکھ تو زندگی تیرے قدم چوُمے گی"

فتح کا راز

            مقدس ولیم لا کاکہناہے۔ کہ ایسے موقعوں کودونوں ہاتھوں سے قبول کرو۔ کیونکہ یہ مبارک مواقع ہیں جن میں ہم خودی کومارتے ہیں۔ ایسے بہت سے مواقع ہونگے کیاہم ان کو دونوں ہاتھوں سے قبول کرینگے اگرایسا ہوتوہماری زندگی فتح کی زندگی ہوگی۔ اگرہماری زندگی کا ایسا ہی  رویہ ہو اور اگرہم اس رویہ کو برقرار رکھیں توپھر کوئی بھی ہمارا ذرا بھر نقصان نہیں کرسکتا بلکہ اس کے برعکس وہ ہمارا بھلا کرے گا۔ وہ ہم کو حقیر جانتے ہیں یعنی وہ ہم کو موقعہ دیتے ہیں کہ ہم خود ی کو ماریں اوراس جلالی فتح کا ثبوت دیں جس میں ہم داخل ہوچکے ہوں۔ وہ ہم کو ایذا دیتے ہیں۔ اوریوں ہم کو موقع دیتے ہیں کہ ہم اس خداوند کے فضل سے جو ایسے موقعوں پر ہماری حمایت کرتاہے فتح پائیں۔ اس کا نام فتح ہے اور یہی خودی کومارناہے۔ اذیت کا آنا ضروری ہے ۔ اوریہ بھی لازمی ہے کہ ہم ایسے موقعوں پر بدگمان نہ ہوں۔

          اب آپ میں سے بعض یہ کہیں کہ یہ قیمت بہت بڑی ہے۔ اورکہ ہم کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ ہم کو اس قسم کی زندگی گزارنی ہوگی۔ کہ لوگ ہم کو روندیں اورہم کو خاموش رہیں اور لوگوں کوہماری طرف سے ہر طرح کی بدگمانی ہو۔ لیکن حق یہ ہے کہ ہم سے اسی قسم کی زندگی کی توقع رکھی جاتی ہے۔ اوریہ ہی فتحمند زندگی ہے۔اوریہ ہی  برکت والی زندگی ہے۔ یہ بیش قیمت تو ہے لیکن اس قیمت کے لائق ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس سے خدا ہماری گواہی کو مکمل کرے گا اورہماری روش کومالا مال کرے گا۔ اوراس طرح تحقیر  کی برداشت کرنے سے اور اذیت سہنے سے ہم خدا سے ناواقف لوگوں کے لئے ایک فصیح وعظ ہونگے اورایک مطمئن گواہی۔

          میری ان لوگوں کے لئے جویہ سمجھتے ہیں کہ یہ قیمت بہت زیادہ ہے یہ صلاح ہے۔ کہ اگر آپ یہ قیمت نہ دینگے توآپ کو اور زیادہ قیمت دینی پڑیگی ۔ ایک دفعہ ایک نوجوان ایک مناد کے پاس آیا اورکہنے لگا کہ بھئی مسیحی ہونے کے لئے تو بڑی قیمت دینی پڑتی ہے۔مناد نے بڑی دانائی سے جواب دیا کہ مسیحی نہ ہونے کے لئے اس سے بھی زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے۔اب ایک تقدیس شدہ مسیحی بننے کے لئے تواور بھی زیادہ  معاوضہ ادا کرنا پڑتاہے۔ اور نتیجہ یہ ہے کہ ہم خدا کے نور ، خداکی زندگی ،اورخدا کی طاقت میں بودوباش کرسکتے ہیں ۔ اورہم میں سے ہرایک ہی اس قسم کا مسیحی بن سکتاہے۔

          اگر آپ نے کبھی بھی اپنے نفس امارہ کودیکھاہے۔ یا ایسے لفظوں پرسوچا ہے جونہایت کرخت تھے ایک دفعہ منہ سے نکلنے کے بعد واپس نہیں لئے جاسکتے یاوہ تحریر جس میں جی کو جلانے والے لفظ استعمال کئے گئے ہوں اورایک دفعہ لکھے جانے کے بعد مٹائے نہیں جاسکتے نہ واپس لئے جاسکتے ہیں ۔ اگرہم نے اس طرح خودی کودیکھا ہے۔ تومجھے پُورایقین ہے کہ ہم یہ قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہونگے اور فضل کو حاصل کرکے اس خودی کومارینگے ۔ اگرایک دفعہ ہم کسی مومن میں گناہ دیکھ پائیں۔ یا کسی مردِ خدا میں خودی کودیکھ لیں۔ توبے شبہ ہم یہ دعا کرینگے جس کومیں نے حال ہی میں ایک کتاب میں دیکھا ہے:

          "مجھ کو فضل عطا کر تاکہ میں اپنی گندی دھجیوں کواس تیزا ہوا میں اُڑا سکوں جو تیرے تخت سے چلتی ہے"۔

          خودی میں کچھ نہیں جس سے ہم وابستہ رہیں۔ بلکہ اس کو حوالہ موت کرنا چاہیے۔ ہم نے اسی قسم کی زندگی گزارنے کا قصد کیا ہے۔ اورخدا ہم کو ایسے مواقع دینے کے لئے تیار ہے کہ ہم خودی کومارتے رہیں اور جُوں جُوں  خودی مرتی جائے گی ابدی زندہ جلالی پیار خداوند مسیح  ترجیح پاتا جائیگا اوریہ ہمارے لئے خوشی کاوسیلہ ہوگا اور بہت سی رُوحوں  کےبچانے کا باعث ہوگا۔ جب یہ نظریہ صاف ہوجاتاہے اوریہ رویہ اختیار کرلیا جاتاہے۔ توپھر ہماری زندگی میں سے دوسروں کے برتاؤ کے تمام ڈنک نکل جاتے ہیں۔کیونکہ ہم سوائے صلیب کے اور کسی طریقے کو قبول نہیں کرتے ہم مایوس نہیں ہوتے اورہم ایک آرام کی زندگی میں داخل ہوتے ہیں جس کی ہم کو اُمید ہوتی ہے عین وہی چیز پاتے ہیں اورمسیح کاجلال ظاہر کرتے ہیں۔

          یہ  وہ پہلی بنیادی حقیقت ہے جس پر میں نے زندگی گزارنی ہے "یعنی وہ زندگی جومیں اب بسر کررہا ہوں"۔ دوسری حقیقت  یہ ہے " میں مسیح کے ساتھ مصلوب ہوا اور میں زندہ ہوں"۔ تھوڑی بہت یونانی  جاننے والا بھی یہ جان سکتاہے کہ مترجم نے ترجمہ میں لفظ" تاہم" استعمال کیا ہے تاکہ مطلب صاف ہوجائے"۔ میں مصلوب ہوگیا اور میں زندہ ہوں"۔ میرے خیال میں رسول یہ لکھتا" میں مصلوب ہوا اور میں مرگیا" ۔ لیکن نہیں" میں مصلوب ہوگیا اور میں زندہ ہوں"۔

خالی برتن

(ظرف)

            آپ دیکھتے ہیں کہ کلوری پر کوئی چیز تو فنا ہوئی اور کوئی چیز جاری رہی۔ خدا نے جب یہ حقیقت مجھ کو دکھائی تومیرے دل کے لئے یہ بڑی تسلی کاباعث ہوئی ایک " میں" توصلیب پر مرگیا اورایک" میں زندہ رہا"۔ یہ بہت ضروری ہے۔ کیونکہ صلیب سے خدا کا مقصد انفرادیت اور شخصیت کو فنا کرنا نہیں تھا۔ بلکہ گناہ اور گناہ آلود خودی کوفنا کرنا تھا۔ وہ "میں" جوصلیب پر مرگیا ایک آقا تھا اور وہ"میں" جو زندہ رہا ایک خادم۔ وہ " میں" جومرگیا خدمت کرانا چاہتا تھا۔ اور وہ "میں " جو زندہ ہے دوسروں کی خدمت کرنا چاہتاہے۔ وہ" میں" جو مرگیا ایک منبع تھا اور وہ" میں"۔ جو زندہ ہے ایک برتن یا ظرف اور جب اس لئے پُرانے "میں" کوچھوڑ کر صلیب دی جاتی ہے توہم یہ گاسکتے ہیں۔

میرا ظرف خالی تھا کوئی خیال

محبت کا آنا تھا اس میں محال

پر اُلفت کااظہار توکرگیا

تہی ظرف عاصی کوتوبھر گیا

          ایک" میں" وہ ہے جس کو خدا ہٹانا چاہتاہے ۔ اورجس کو ہم بھی ہٹانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اس سے ہر طرف تباہی اور بربادی پھیلتی ہے۔ اور یہ عیاں ہے۔ ایک اور" میں" ہے جو جاری رہتی ہے۔لیک ایک خالی ظرف یا برتن کی طرح تاکہ اس میں خدا کا جلال ظاہر ہو۔ اب یہ خالی ظرف نہیں مرتا بلکہ وہ گناہ آلودخودی جواس کوبھرتی ہے ٹھیس لگنے پر طعن وتشنع کے ساتھ گر کر چوُر چُور ہوجاتی ہے۔

          یہ گناہ آلودہ" میں" بعض دفعہ دُعائیہ اجلاس میں نمودار ہوتی ہے۔ اور بعض دفعہ دُوسری حالتوں میں بھی۔ جب یہ دعا کرتی ہے توکہتی ہے " اے خداوند تیرا شکر ہو کہ میں دوسرے آدمیوں کی طرح نہیں"۔ بعض  مرتبہ یہ قوت چاہتی ہے اور دُعا کرتی ہے کہ مجھ کو یہ قوت مل جائے  یا وہ لیکن حکم تویہ ہے کہ "تم روح القدس" پاؤ گے"۔ اے خداوند توہم کو دعائیہ اجلاس میں اس خودی کے اظہار سے رہائی دے۔ اس کو ہماری راہ سے ہٹ جانا چاہئے۔خُدا نے اس کو ہماری راہ سے ہٹا چھوڑ اہے۔ اورہم نے بھی ارادہ کیا ہے کہ یہ ہماری راہ سے ہٹ جائے۔ خدا بھی اپنا فضل ہم کو بخشیگا کہ یہ روز بروز ہماری راہ سے ہٹتی جائے۔

          لیکن ایک اور" میں" ہے جس کو خدا نے جوبڑا کارساز ہے۔ ایک خالی ظرف بنایا ہے اوراس کا ارادہ ہے کہ اس کو زندگی کے پانی سے بھردے تاکہ یہ چھلک کر ہر طرف اورہروز بہے۔ وہ"میں" جوخدا قائم رکھتاہے۔ اورجس کےبارے میں کوئی مومن فکرمند ہوہارون کے سینہ بند میں اس پتھر کی مانند ہے جوکہ خدا کے نور کی شعاؤں کومختلف رنگوں میں اورمختلف طریقوں میں افشاں کرتاہے۔ آہ میرے دوستو تمہاری حقیقی انفرادیت  کوخدا نے بڑے عجیب  طریقہ  سے بنایا۔جبکہ اس نے تمہارے آبائی بانا کو تمہاری حالت کے مطابق تانا۔ خدا نے اس کو اس لئے بنایا تاکہ اُس کو قائم رکھے اور اپنے جلال کوظاہر کرے۔چنانچہ تمہاری اصلیت قائم نہیں رہ سکتی جب تک کہ تمہاری گناہ آلودہ خودی کی موت واقع نہ ہو۔ اور تمہاری اپنی انفرادی شخصیت کومسیح بھرپور نہ کرے۔ یہ دُوسری حقیقت ہے۔ایک" میں" ہے جس کی موت لازمی ہے۔ اورایک" میں" ہے جس نے زندہ رہنا ہے اور خدا کے جلال سے بھرپور ہونا ہے۔

          تیسری حقیقت یہ ہے کہ ہمارا تعارف ایک نئے مالک سے ہوچکا ہے "تاہم میں نہیں بلکہ مسیح  مجھ میں زندہ ہے"۔ میں برتن کو پیش کرتاہوں اوروہ اُس کو بھردیتاہے ۔ چند سال ہوئے ایک مسیحی رسالہ میں یہ اشتہار چھپا تھا۔(ضرورت ہے بتیوں کی جو خدا کی خاطر جل سکیں۔ تیل مُفت دیا جائے گا اور افراطِ سے دیا جائے گا۔ بتیوں کی ضرورت ہے ۔ خالی بتیوں کی ضرورت ہے۔ مسیح اُن کو لباب بھر دے گا )۔ میں ایک خالی برتن ہوں۔ ایک مٹی کا برتن ، ضرورت یہ ہے کہ مجھ کو بھردیا جائے۔ اور مجھ کو اس تازہ شفاف آبِ حیات سے بھرا بھی جاسکتاہے جوکہ برتن میں پڑتے ہی برتن کی شکل اختیار کرلیتاہے"۔ تاہم میں نہیں بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے"۔ یہ وہ نیا اُصول ہے جس کے مطابق ہماری زندگی کوبسر ہونا ہے۔ اس زندگی کوخدا کے بیٹے کے ایمان پر بسر ہونا ہے۔ ہم نے نمائشی  زندگی نہیں بلکہ ایمان کے مطابق  زندگی گزارنی ہے۔ ہم نے ان لوگوں کی طرح زندگی بسر نہیں کرنی ہے جن کو نئی پیدائش  نہ ہوئی ہو۔ اورنہ ہی اُن لوگوں کی طرح جذباتی زندگی بسر کرنی ہے۔ جن کی زندگیوں کی تقدیس نہ ہوئی ہو بلکہ ہم نے ایمان کے اُصول کے مطابق زندگی بسر کرنی ہے۔

          اب میرے خیال میں گلتیوں کے خط کے دُوسرے باب اور بیسیوں آیت کا ترجمہ یوں ہوسکتاہے" میں خدا کے بیٹے کے ایمان کے مطابق زندگی گزارتاہوں "۔ اور ایسی آیت کو نئے ترجمہ کے مطابق یوں بھی پڑھاجاسکتاہے" میں خدا کے بیٹے کی وفاداری کے مطابق زندگی گزارتاہوں"۔ یونانی لفظ کا ترجمہ" ایمان" اور وفاداری دونوں ہی ہوسکتاہے۔

          آپ کو یادہوگا کہ جب ہڈسن ٹیلر ننگپوزبان میں نئے عہدنامہ کے ترجمہ کی نظرثانی کرررہے تھے تووہ مرقس  کی انجیل کے گیارہویں باب کی بائیس آیت" خدا پر ایمان رکھو" پرسوچنے لگے جب اُنہوں نے اسی آیت کویونانی زبان میں دیکھا توسوچا کہ اس کا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے" کہ خدا کی وفاداری کوتھامے رہو"۔ اوراس خیال نے ہڈسن ٹیلر کی زندگی کے تجربے میں ایک انقلاب پیدا کیا۔ اگرمجھ کوخود اپنی شخصی گواہی دینی پڑے تومیرے حق میں بھی ایک انقلاب ہوگا۔

          اگر میں اپنے ایمان پر غور کروں تومیں بڑی آسانی سے مایوس ہوجاتاہوں اورمجھے خیال آتاہے کہ میرا ایمان بہت چھوٹا اور کمزور ہے۔ لیکن جب میں مسیح کی وفاداری پر سوچتاہوں اوراپنے ایمان پر غور نہیں کرتا تومسیح کی وفاداری مجھ کو بہت مضبوط اور بڑی معلوم ہوتی ہے۔ اورجب میں مسیح کی وفاداری پر بھروسہ رکھتاہوں اوراپنے ایمان پر نہیں تومیرا ایمان یسوع کی وفاداری کی جگہ لے لیتاہے۔ اورمیری ضرورت اورمسیح کی معموری مل جاتے ہیں ۔ مسیح کی وفاداری طاقت اور فضل بخشی ہے۔ اور میرا ایمان اس طاقت اور فضل کوا ستعمال کرتاہے۔

کثرت سے پیو

            گذشتہ اکتوبر چین کے ملک میں مغربی بعید کے شہر چنگتو میں مجھ کو جانے کا اتفاق ہوا۔یہاں پر کچھ مبُشر خدا سے خاموشی میں ملاقات کے لئے دعا کرنے کو اکٹھے ہوئے تھے۔ اورمجھ کو کلام کی تلاوت کا شرف بخشا گیا تھا۔ ہم سب مل کر اپنے مسئلوں کے متعلق دُعا کی اورانجیل کی ترقی کے بارے میں سوچا۔ تفریح کے وقت میں ہم ایک دوسرے کو چھیڑا بھی کرتے تھے۔ اورمیرا خیال ہے کہ یہ ناجائزبھی نہ تھا۔ اس گروہ میں ایک زنانہ مُبشر تھی جوکہ لندن سے تشریف لائیں تھیں۔ اورگروہ میں سے کسی نے لندن کے متعلق کوئی معیوب سا جملہ استعمال کیا تاکہ اُس مبشر کو چھیڑے اوراس کو اشتعال دلائے مُبشر نے اس کے جواب میں کہا" دیکھئے صاحب آپ لندن کے متعلق کچھ نہ کہئے۔ کیونکہ لندن میں آپ کو نلکہ کھولتے ہی پانی مل سکتاہے"۔

          یہ ولایت کے لوگوں کے لئے شائد کوئی بڑی بات نہ ہو لیکن اُن لوگوں کے لئے یہ عجوبہ ہے جن کو کنوؤں سے پانی کھینچنا پڑتاہے اورپینے سے پہلے اس کو ابالنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔اگر ایسے لوگ ولایت یا امریکہ کے شہروں میں جائیں تونلکے اُن کے لئے باعث مسرت ہوں گے کیونکہ نلکے کھولتے ہی اُن کو ٹھنڈا شفاف اور تازہ پانی دستیاب ہوسکے گا۔ لندن میں آپ کو نلکہ کھولتے ہی پانی مل سکے گا۔ آپ نے صرف نلکہ کھولنا ہے۔ اوراس کے علاوہ کچھ نہ کچھ معاوضہ بطور محصول حکومت کو ادا کرنا پڑتاہے۔

          یہ ہی مبارک زندگی کا بھید ہے۔ اس چشمے میں سے ہمیشہ نکالتے رہنا جوکہ ہمارے لئے کھول دیا گیا ہے۔ لیکن یہ تو اُس سے بھی بہتر ہے! ہم فقط نلکے پر جاکر پانی حاصل نہیں کرتے" جوکوئی اس پانی سے پیئے گا جومیں اُسے دوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہوگا بلکہ جوپانی میں اُسے دوں گا وہ اس میں ایک چشمہ بن جائے گا جوہمیشہ کی زندگی کے لئے جاری رہیگا"۔ پس جب خودی کی زندگی کوراستے سے ہٹادیا جاتاہے اورجب خودی کو مارنے کا موقع ملتاہے۔ تویہ چشمے ازسرنو پھوٹ نکلیں گے اور ہماری زندگیاں مبارک بن جائیں گی اورہم تازگی پائیں گے۔ ہم پائیں گے اور کثرت سے پئیں گے اورہم میں سے ہرروز اورہر جگہ زندگی کے دریا بہہ نکلیں گے۔ جن سے خدا کا جلال ظاہرہوگا اوربہت سے لوگ تازگی پائیں گے۔ ایسے قول وقرار کے بعد خدا ہم کو ایسی ہی زندگی کی دعوت دیتاہے۔

تمام شُد

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس | Tags: | Comments (0) | View Count: (14198)
Comment function is not open
English Blog