en-USur-PK
  |  
16

انسانی روح کیونکر خلاصی پاسکتی ہے؟

posted on
انسانی روح کیونکر خلاصی پاسکتی ہے؟

How a Soul can be Saved?

Rev. Mawlawi Dr. Imad ud-din Lahiz 

(1830−1900)

انسانی روح کیونکر خلاصی پاسکتی ہے؟

علامہ مولوی پادری ڈاکٹر عماد الدین لاہز

           

            یہ مشکل اورضروری سوال کئی طرح ادا ہوسکتا ہے ۔ مثلاً انسان کی نجات  کیونکر ہوسکتی ہے ۔ یا اے بھائیوں ہم کیا کریں کہ نجات پائیں۔ وغیرذالک۔

          جس طرح یہ سوال مختلف طور پر ادا ہوسکتا ہے اسی طرح اس کے جوابات بھی مختلف پیرایہ میں دیئے جاتے ہیں۔

          لیکن اس پیارے سوال کا صحیح جواب سننے کو ہر عقلمند کا دل ضرور چاہتاہے کہ  کیونکہ اس کا صحیح جواب زندگی کا مرکز ہے اسے نہ پانا زندگی سے مطلق نا امید ہونا ہے۔

پہلا جواب

          بعض دنیاوی  عقلمند یہ جواب دیتے ہیں کہ اس حالت سے  آدمی نکل ہی نہیں سکتا ہے اس لئے  اس کا فکر ہی نا مناسب ہے لیکن یہ عندیہ کئی وجوہ سے غلط ہے ۔

(۱)روح کے فضائل مذکورہ اور اس کی قدر کی اس میں کچھ رعایت نہیں ہے ۔

(۲)خدا کی قدرت کا اس میں انکار ہے ۔

(۳)سراسر جسمانیت پر مبنی ہے ۔

(۴)خدا کا وہ قانون انتظام جو اصلاح مفاسد کے لئے ہے اس میں مفقود ہے ۔

(۵)روح کے تمنائے خوشی کی تکمیل اس میں نہیں ہے ۔ جوعقلاً ناجائز ہے وغیرہ۔

دوسرا جواب

          بعض اہل مذاہب یہ جواب دیتے ہیں کہ انسانی راستبازی اس کو موت کے بعد رہائی دیگی۔

          یہ جواب عام طور پر پسند کیا جاتا ہے اور عام لوگ فوراً یہی  جواب دیتے ہیں  لیکن یہ جواب کئی طور پر  باطل ہے ۔

(۱)جو تلوار اس وقت کاٹ نہیں کرتی وہ جنگ میں کیونکر کام دیگی ؟

(۲)زور آور کے قبضہ سے کمزور نہیں بلکہ زور آور تر چھڑا سکتا ہے ۔ حالانکہ  ہم اس حالت میں نیکی  کو مغلوب اور بدی کو غالب دیکھ رہے ہیں پھرکیونکر  اس عندیہ  پر اختیار کریں۔

(۳)کیا قوت غالبہ کے باوجود ہم مغلوب ہیں یا عدم قوت کے سبب سے ؟

(۴)آج تک کسی آدمی میں قوت ِ مخفیہ کیوں ظاہر نہیں ہوئی؟

(۵)اگر ہم روشنی رکھتے ہوئے  تاریکی میں پھنسے ہیں تو ہماری  خطرناک  حالت کچھ بات ہی نہیں ؟

(۶)انسانی راستبازی کا لعد م ہے ٹٹولنے سے اس میں سے کچھ بھی نہیں نکل سکتا ہے؟

(۷)جو کوئی کہتا ہے کہ  نیکی کے ذریعہ  سے بچینگے  اس کا مطلب یہ ہے کہ  پورا قرض ادا کرکے جیلخانہ  سے چھوٹ جائينگے  لیکن یہ انہونی بات ہے درحقیقت اس کے معنی یہ ہیں کہ  نجات نہیں ہوسکتی ہے ۔

          یہ خیال شریعت قلبی اور تحریری  کی نافہمی سے پیدا ہوا ہے نہ شریعت سے کیونکہ  شریعت میں راستبازی کرنے کا ذکر اور اس کے  کرنے کی بڑی تاکید  اس غرض سے ہے کہ  انسان اپنی حالت   لاچاری کو معلوم کرے نہ اس لئے کہ وہ راستبازی کریگا اور اس کےو سیلہ سے نجات پائيگا  پس وہ حالت  نمائی ہے ۔

تیسرا جواب

          پرانے جاہلوں کاخیال  ہے کہ ہم جس حال میں پیدا ہوئے ہیں اسی حال میں پڑے رہینگے  خدا اپنے فضل سے آپ ہی نکالیگا ۔ اس جواب میں کچھ راستی اور کچھ ناراستی ملی ہوئی ہے ۔

          خالق کے فضل پر تکیہ کرنا راستی کی بات اور مناسب بھی ہے اور عقل بھی اسے قبول کرتی ہے ۔ مگر ناراستی اس جواب میں یہ ہے کہ :

(۱)بد حالت میں بے خوف پڑے رہنا بدحالی کو پسند کرنا اور سزا کی حالت کو حقیر سمجھنا ہے ۔

(۲)اس جواب کو پسند کرنا اس فضلی کشش کی تڑپ کو جو روح میں مرکوز ہے مندفع کرتا ہے ۔

(۳)عالم اسباب میں رہے کر وسائل رحم سے قطع نظر کرکے رحم کا امید وار رہنا بیوقوفی ہے ۔

(۴)خالق میں نہ صرف رحم ہی ہے مگر اور صفات بھی ہیں پس کیونکر  یقین ہوسکتا ہے کہ ہماری طرف صرف  صفت  رحم ہی مرعی ہوگی۔ حالانکہ  آثار غضب بگواہی حالت بدہم پر بشدت طاری ہیں۔

(۵)ایسا نہ ہو کہ جھونپڑے میں رہے کر  محلوں کے خواب دیکھتے رہیں۔

ان تینوں جوابوں کے ماحصل

(۱)یہ تینوں جواب کیا ہیں نا فہمی اور غفلت  کے نتیجہ ہیں اور انجام موت ہے ۔

(۲)اب یہ بھی دیکھ لو کہ اس لاچاری کی حالت میں انسانی عقل کوئی مفید نسخہ نہیں نکال سکتی جس سے انسان اس بد حالت سے نکلے ۔

(۳)یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ سارے مذاہب جن میں یہ تقریریں لکھی ہیں خدا سے نہیں ہیں کیونکہ یہ سب مخلصی کی راہ نہیں دکھلاسکتے ان کے خیال میں بھی مخلصی کی راہ نہیں آئی ہے ۔

چوتھا جواب

          وہ ہے جو الہام کی کتابوں سے ملتاہے اور  وہ ان سب سے نرالا ہے او اسی سے انسان کی تسلی ہوتی ہے وہ یہ ہے ۔

          کہ اس بد حالت سے مخلصی اسی زندگی میں اس الہیٰ حکمت سے ہوسکتی ہے جو بڑی گہرائی کے ساتھ سیدنا مسیح میں ظاہر ہوئی ہے بشرطیکہ  طالبان نجات کے دل اس کے لئے اسی حکمت کی مناسبت  پر مستعد وطیار ہوں۔

          اس کا حاصل یہ ہے کہ  نجات صرف خدا کی طاقت سے ہے ۔ مگر اس کی خواہش انسان کی طرف سے چاہیے ۔ یعنی اگر وہ چاہے کہ میں نجات پاؤں تب خدا اسے نجات دیتا ہے ۔

          پس چاہیے کہ آدمی بد حالی پر اور لاچاری پر اور روح کی پاک  خواہشوں پر اور شریعت کی تکمیل  پر جو مطلوب ہے غور کرکے اس (دباوخستگی )جو حقیقت میں اس کے اندر ہے اور وہ نہیں جانتا خوب معلوم کرے ایسا کہ نہ صرف اس کی زبان بلکہ اس کی روح یوں چلائے کہ گناہ اور غم کے غار میں  سے ۔ میں کرتا ہوں کہ فریاد خدایا میری سن آواز ۔ اور فرماتو مجھے یاد۔ اسی کا نام دروازہ کھٹکھٹانا ہے اسی کو خالص طلب کہتے ہیں یہی موقع کشش رحمت کا ہے یا اخذ ضیاء کا آفتاب صداقت سے موقع ہے ۔

          یہ حالت ایک محتاج روح کے ہاتھ پھیلانے کی ہے اس سچے  غنی اور سخی کے سامنے  جس کے دروازہ سے کوئی نا امید نہیں پھر سکتا اور جس کا دروازه چھوڑ کر کسی دروازہ سے کچھ فائدہ نہیں پاسکتے۔

          عقل بھی کہتی ہے کہ  قادر مطلق کا فضل اس حالت کے ساتھ متوازی ہونا چاہیے۔

          کیا رکاوٹ  ومزاحمت  کے ساتھ کوئی کشش پوری قوت دکھلاسکتی ہے ہر گز نہیں ۔

          یا کا بدوں تنقیح کے صحت ہوسکتی ہے اور دوا کا رگر ہوسکتی ہے ہرگز نہیں ۔

          کیا جہل مرکب لے کر  ہم علوم میں ترقی کرسکتے ہیں کبھی نہیں۔ پس اس حالت سے  نکلنے  کے لئے  اس قسم کی تیاری کی ضرورت ہے ۔

           تب الہیٰ قوت اس حالت سے نکالنے  کے لئے  جو ہر وقت موجود ہے اپنی تاثیر  دکھلائیگی  اور روح کے بندھن کھل جائینگے  اور پہلے روح پر پوپھٹنے کی روشنی چمکیگی ۔

          اگر چہ ہزاروں پر جو اس کے ارد اگرد ہیں رات  رہے لیکن اس  شخص پر ضرور پوپھٹیگی ۔

          دیکھو سیدنا مسیح کے صحابہ کرام چلاتے ہیں (انجیل شریف خط دوم اہل کرنتھیوں رکوع 4 آیت 6)۔ " خدا جس کے حکم کے مطابق  تاریکی سے روشنی چمکی اس نے ہمارے دلوں کو روشن کردیا۔"

          وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں روشنی آگئی نہ یہ کہ ہم  روشنی کے امیدوار ہیں ۔ اور ضرور ان میں روشنی تھی۔ ان کے اقوال اور ان کی زندگی سے ظاہر ہے کہ ان کے دل ضرور روشن تھے اور اس میں کیا شک ہے کہ جب مہلکات  روحانیہ  دل سے نکل گئیں یعنی حسد، غضب ، کینہ ، بدی وغیرہ اور باطل  خیالات  بھی دماغ سے دور ہوئے اوراس کے عوض صحیح خیالات اپنے اور خدا کے اور جہان کی نسبت  قائم ہوئے  اور محبت ، وخلق وخیر اندیشی اور ہمدردی اور رحم سے بھر پور ہوگئے  تو پھر کیونکر نہ کہیں کہ اندھیرا جاتا رہا اور روشنی آگئی اور یہ ایسی روشنی ہے کہ اس کے لئے  اہل ریاضت  سر پٹک کر مرگئے لیکن ان کو میسر  نہ ہوئی اور نہ اہل علم کو کبھی یہ بات حاصل ہوئی ۔ اس لئے کہ مسیح کے شاگرد یہ بھی بتلاتے ہیں کہ یہ روشنی ہم میں کہاں سے آئی سرچشمہ روشنی کہاں ہے۔

          خدا روشنی کا سرچشمہ ہے جس نے سب کچھ نیست سے ہست کیا ادھر سے روشنی آگئی ۔ پس وہ روشنی کاسرچشمہ بھی درست بتلاتے ہیں اور ضرور ان میں روشنی بھی ظاہر ہے لہذا چھٹے لیکچر کی پہلی بات  دفع ہوئی۔

          اور جب دل میں دن ہوگیا تو پھر غنودگی کہاں اب دیکھو ان کی سرگرمی کو کہ دنیا خواب ِ غفلت میں بڑبڑاتی ہے اور و ہ کیسی پر ُمحبت  باتوں سے جگاتے ہیں  اور جاگتے ہیں انہوں نے  خدا کو پسند کیا اور دنیا کو چھوڑ دیا۔ وہ خدا کی خدمت کرتے ہیں پر اہل دنیا اپنی نفس پروری میں مشغول ہیں ان کے سر پر سے موت کی گھٹاہٹ  گئی ہے فضل اور برکاتِ سماوی کی اوس ان پر صاف پڑتی ہوئی نظر آتی ہے ان کے سارے دنیاوی بندھن ٹوٹ گئے لہذا وہ آزاد ہیں۔

حاصل کلام یہ ہے

          کہ اس بدحالت سے انسان نکل سکتا ہے کیونکہ اگر چہ وہ جسمانی تولد کے اعتبارسے  اس حالت میں پیدا ہوا ہے مگر روحانی تولد کے اعتبار سے  پیدا نہیں ہوا ہے۔

          ہاں ہماری کوشش اور ہماری راستبازی اس حالت سے  ہرگز نہیں  نکال سکتی لیکن خدا کی قدرت  جو سیدنا عیسیٰ مسیح میں ظاہر ہوئی ہے اس سے مخلصی پاسکتے ہیں۔

          خدا پر بے ہودہ بھروسہ رکھنا بھی نہیں نکال سکتا کیونکہ شان ِ الوہیت  اور انتظام عالم کے خلاف ہے ۔

          لیکن ایک ہی نام ہے جس سے نجات پاسکتے ہیں اور وہ سیدنا عیسیٰ مسیح ہے فقط۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا | Tags: | Comments (0) | View Count: (15722)
Comment function is not open
English Blog