en-USur-PK
  |  
17

اَلکفارہ

posted on
اَلکفارہ

THE ATONEMENT

In Christianity and Islam

By

Rev.W.GoldSack

اَلکفارہ

مسیحیت اور اسلام

          مسلمان اورمسیحی اس بات پر متفق ہیں کہ تمام بنی آدم گنہگار اور مغفرت کے محتاج ہیں۔ لیکن گناہ اوراس سے نجات حاصل کرنے کے مسئلہ پر بہت اختلاف ہے ۔ تاہم جس طرح خداباوجود گوناگوں اظہار کے ایک ہی ہے اسی طرح نجات حاصل کرنے کا ذریعہ بھی خدا کی طرف سے یقیناً ایک ہی مقرر کیا گیا ہے۔ لہذا نتیجتہً   ہم پر فرض ہے کہ اس ذریعہ نجات کو دریافت کریں۔ پس اس رسالہ میں پہلے ہم ان چند طریقوں کا مختصراً  ذکر کرینگے ۔ جن کے وسیلہ سے لوگ نجات کی امید رکھتے ہیں۔ اورپھر اس الہیٰ ذریعہ کا بیان کریں گے۔ جو پاک نوشتوں میں مندرج ہے اورجس کی عقلی دلائل سے بھی تصدیق ہوتی ہے۔

          ۱۔ بہت سے مسلمان یہ امید رکھتے ہیں کہ اپنے نیک اعمال کے وسیلہ سے نجات حاصل کرینگے ۔ چنانچہ وہ امید رکھتے ہیں کہ اگر نماز ، روزہ اورحج وغیرہ اسلام کے بڑے بڑے پانچ فرائض کو بجالادیں تو ضرور نجات حاصل کرینگے ۔ لیکن اس بات میں ذرا بھی شک نہیں کہ کوئی مسلمان ان پانچ  فرائض کو پورے طور سے ادا نہیں کرسکتا۔ لہذا اپنے نیک  اعمال سے نجات حاصل کرنے کی امید باطل ٹھہرتی ہے۔

          ہم ہر ایک منصف مزاج مسلمان سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات قرین قیاس ہے کہ خدا ہماری نجات چند ایسے کاموں پر موقوف رکھے جن کی نسبت ہم اپنے تجربہ سے جانتے کہ ان کو پورے طور سے کوئی بھی نہیں کرسکتا؟ کیا خدا یہ نہیں چاہتا کہ گنہگار  نجا ت پائیں؟ اگر وہ چاہتاہے تو کیا ہمیں کامل یقین کرنا چاہیے کہ  اس نے تمام بنی آدم کے لئے نجات کی تدبیر کی ہے؟اب ہم اس تدبیر یا ذریعہ نجات کو دریافت کرنے کی کوشش کریں گے۔

          یہ بات بھی یاد رکھیں کہ نیک کام کرنا ہمارا فرض ہے اوراس لئے گناہ  کا پردہ جو ہم کو خدا سے جدا کرتاہے۔ نیک اعمال کے وسلہ سے دور نہیں ہوسکتا۔ فرض کروکہ کوئی  شخص قحط کے زمانہ میں اپنی فیاضی  اورسخاوت سے بہت سے لوگوں کو فاقہ کشی سے بچائے اورپھر کسی وقت طیش میں آکر کسی کو مارڈالے ۔ اب کیا اس کی سخاوت وفیاضی اس کو خون کے جرُم سے بری کردیگی اوراس کو سزا سے بچاوے گی ؟ اگر وہ اپنی سخاوت  وفیاضی کی بنا پر رحم کا خواستگار  ہوتو کیا حاکم اس کا کچھ خیال کریگا؟ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ کہیگا کہ سخاوت وفیاضی میں تم نے  اپنا فرض ادا کیا ہے اس سے تمہارے گناہ کی معافی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح سے یہ بھی ایک حقیقت  ہے کہ ہمارے  نیک اعمال ہمارے بیشمار گناہوں کو دور نہیں کرسکتے ۔ نیک اعمال ہمارا فرض ہے ۔ نیک اعمال سے ہمارے گناہ معاف نہیں ہوتے۔ چنانچہ سیدنا مسیح نے فرمایا ہے ۔ جب سب حکموں کی تعمیل کرچکو تو کہو کہ  ہم " نکمے نوکر" ہیں۔ جو ہم پر فرض تھا وہی کیا ہے"(لوقا ۱۷: ۱۰)۔

          ۲۔ بہت سے حق شناس مسلمان تسلیم کرتے ہیں کہ انسان اپنے نیک اعمال کے وسیلہ سے نجات حاصل نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ وہ نیک اعمال کے وسیلہ سے نجات کی تعلیم کی تردید کرکے یوں کہتے ہیں کہ خدا کی خوشنودی اورگناہ سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ گنا ہ سے توبہ کرنا اورپشیمان ہوناہے۔ اس بات پر تھوڑا سا بھی غور کیا جائے ۔ تو صاف معلوم ہوجائے گا ۔ کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔

          اول تو دیگر نیک اعمال کی طرح توبہ بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ اپنے گناہوں سے پشیمان ہونا اور خدا سے مغفرت مانگنا۔ اس قادر مطلق سے میل حاصل کرنا کی طرف پہلا قدم ہے لیکن اس سے گناہ تو معاف نہیں کیا جاتا۔ توبہ سے گناہ کا معاوضہ نہیں ہوسکتا۔ اگر عدالتوں کی کارروائی پر نظر کی جائے۔ تویہ مسئلہ  بالکل صفائی سے سمجھ میں آجائے گا۔

          اب ذرا خیال کیجئے کہ اگرکوئی شخص کسی سخت  جرُم کا مجرم ثابت ہو۔ اورپھر وہ نہایت  نادم وپیشمان ہوکر گریہ وزاری کرے اورحاکم سے رحم کا خواستگار ہو۔ توانجام کیا ہوگا؟ کیا اس کی پیشمانی اورآنسوؤں کے باعث  حاکم سے اسے معاف کردیگا؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ ایسی معافی سخت بے انصافی  ہوگی۔ جب کوئی جرم  ایک بارثابت ہوچکا۔ تو قانونی  تقاضا  لاابدی امرہے۔ اگر قانونی  تقاضہ ملحوظ نہ رکھاجائے اورمجرم سزا نہ پائے تو قانونی اصول پائمال ہونگے۔ اورانصاف خاک میں مل جائیگا۔ یہ بات تواظہر من الشمس ہے کہ عدل وانصاف کے تمام اصول وقواعد انسان کو خدا نے سکھائے ہیں۔ پس کیا خدا خود ان قواعد وقوانین کے برخلاف کرسکتاہے۔ جن کو اس نے خود بنایا اورانسان کے دل میں قائم کیا۔ کیا وہ صرف گنہگار کے آنسو دیکھو کراس کے ماضی کے گناہ معاف کرسکتاہے۔ یہ امر روز ِ روشن کی طرح صاف عیاں ہے کہ خدا اپنے قانون کو نہیں توڑسکتا ۔ اورگنہگار  کوواجبی سزادیئے  بغیر معاف نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ  کرے تو اس کو کون منصف وعادل کہے گا ؟

          پھر یہ بات بھی قابل  یاد ہے کہ جس نے ہم کو دین عنایت کیا ہے وہی تمام مخلوقات ومکنونات کا خالق ہے۔ لہذا خدا کی مخلوقات میں اس کے قوانین کو دیکھنے کی امید کرناہمارے لئے طبعی بات ہے۔ پس ہم موجودات ومخلوقات سے گناہ اورگناہ کے نتائج کے بارہ میں کیا سیکھتے ہیں ؟ جب انسان قانونِ قدرت کے توڑنے سے کسی بری بیماری میں مبتلا ہوکر تکلیف اٹھاتاہے تو کیا اس وقت اس کا اپنی غلطی سے توبہ کرنا اسے صحت کی دولت دے سکتاہے ؟ اسی طرح یہ بھی یقینی بات ہے کہ گذشتہ کے گناہوں سے پشیمان ہونا اورتوبہ کرنا ہم کو گناہ کے مرض سے شفا نہیں دے سکتا۔  اسی طرح ہم امید کرسکتے ہیں کہ خدا نے گناہ کے ہولناک مرض سے بھی کامل شفایابی کا انتظام کردیاہے۔

          جو لوگ توبہ کا گناہ کی معافی کا کافی ذریعہ بیان کرتے ہیں ، وہ بیشک  خدا کے رحم کو پیش کرتے ہیں ۔ اس میں توکلام نہیں کہ خدا رحیم ہے۔ لیکن ساتھ ہی  وہ منصف وعادل بھی ہے۔ وہ عادل ہوکر  گنہگار کو کس طرح معاف کرسکتاہے جب تک کہ عدل کے تقاضا کو پورا نہ کرے ؟ وہ بے انصافی  سے رحیم نہیں ہوسکتا۔  یا یوں کہیں کہ وہ رحیم ہونے کے لئے اپنے عدل سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔ اگر خدا گناہ کی سزادیئے  بغیر  معاف کردے تواس کا عدل قائم نہیں رہے گا۔ اوراس کا کلام بے حقیقت  ٹھہرے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ گنہگار  انسان کی نجات صرف کسی ایسے طریقے سے ہوسکتی ہے ۔ جس میں  خدا کے تمام اوصاف  قائم رہیں۔ اوران کو اظہار کا مناسب موقع ملے۔ جب اس کا بیحدرحم ظاہر ہو تو ساتھ ہی کامل عدل وانصاف بھی نظر آئے۔ لیکن اگر صرف توبہ کرنا ہی نجات  حاصل کرنے کےلئے  کافی ہو۔ تو صرف خدا کی محبت  اوراس کے رحم کی تعریف ہوگی۔ مگراس کا عدل خاک میں مل جائے گا۔

          احادیث میں خدا عادل کہلاتاہے۔ لیکن ان میں یہ مسئلہ نہیں ہوتا کہ  وہ باوجود عادل ہونے کے کس طرح معاف کرسکتاہے۔

          ۳۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو مذکورہ بالا امور کو مانتے ہیں۔ وہ صاف طور سے سمجھتے ہیں کہ نیک اعمال اورتوبہ کے وسیلہ سے گناہوں کی معافی حاصل نہیں ہوسکتی۔ وہ خدا کے کامل  عدل پر بہت  زوردیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ گناہ کی سزا ضرور ملے گی۔چنانچہ یہ لوگ قرآن سے بھی اس بات کے ثبوت میں سورہ مریم کی ۷۲ویں آیت پیش کرتے ہیں " ۔ تم میں سے ہر ایک جہنم میں جائے گا"۔ اس آیت سے صاف عیاں ہے کہ ہر ایک بشر کو اپنے گناہوں کی پوری سزا بھگتنے کے لئے جانا پڑے گا۔ بعد میں جب عدل وانصاف کا تقاضا پورا ہوجائے گا ۔ اور خدا کی شریعت  اپنا کام کرچکے گی۔ تورہائی وقوع میں آئے گی۔

          یہ تعلیم دیگر مندرجہ بالا تعلیمات  سے کسی قدر معقول معلوم ہوتی ہے کیونکہ  یہ خدا کی شریعت کی عظمت  کا اعتراف کرتی ہے اوراس سچائی کا اظہار کرتی ہے کہ عدل اس امر کا مقتضی ہے کہ گناہ کی واجبی سزا دی جائے لیکن اگر اس قسم کا عقیدہ درست ہو۔ توپھر یہ سوال پیش آتاہے کہ خدا کی محبت  اوررحم کہاں ہیں؟  کیا محبت اوررحم پائمال ہوگئے؟ کیا خدا ایسا بے رحم اورمحبت  سے خالی ہوگیا کہ اسے اپنی مخلوقات پر رحم نہیں آتا؟ کیا وہ ایسا منتقم ہوگیا۔ کہ اس میں رحم کا نام تک نہ رہا۔نعوذ باالله من ذالک پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سزا عموماً  انسان کے دل کو سخت کردیتی ہے۔ پس ممکن ہے کہ گذشتہ  کے گناہوں کی سزا پاتے ہوئے انسان اور نئے  گناہوں کا مرتکب ہوتا جائے۔ اوراس طرح سے اس کی سزا کا کبھی خاتمہ نہ ہو۔ انسان کے لئے  نجات کی ایسی تدبیر کی ضرورت ہے جس کے وسیلہ سے وہ گناہ سے گھن اورنفرت کرنا سیکھے۔ کیونکہ صرف یہ ہی ایک طریقہ  ہے جس سے اس کارخ خدا کی طرف ہوگا ۔ اور وہ رفتہ رفتہ  گناہ کی تاثیر  اور قدرت سے آزاد ہوجائے گا۔

          احادیث  میں خدا تعالیٰ نہ صرف بالعادل بلکہ الرحمنٰ بھی کہلاتاہے پس خدا اگر رحمنٰ ہے تو ضرور وہ بنی آدم کی نجات کا کوئی وسیلہ بہم پہنچائے گا۔ ہاں اس نے اپنے بندوں کی نجات کا ذریعہ بہم پہنچایا ہے۔ جوچاہے اس کا بیان انجیل شریف میں پڑھے ۔ اورخدا کی عجیب لامحدود محبت کا اظہار دیکھے۔ اب ہم مختصر  طورپر خدا کے اس رحیمانہ انتظام کا بیان انجیل میں دیکھیں ۔ کہ اس نے گنہگار بنی آدم کی نجات  کےلئے کیا تدبیر کی ہے۔

          ۴۔ خدا باوجود عادل ہونے کے گنہگار  کو کس طرح  معاف کرسکتا ہے۔ اس سوال کا جواب انجیل  شریف میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ لکھاہے کہ" بغیر خون بہائے معافی نہیں ہو سکتی"۔ ان الفاظ  میں کفارہ کی بڑی تعلیم کی طرف اشارہ ہے جس کے وسیلہ سے خدا نے گنہگار  بنی آدم کی نجات کا انتظام کیا ہے۔ لہذا ہم اس سنجیدہ مسئلہ پر غورکرینگے ۔ کفارہ کے لغوی معنے" چھپانے والے " کے ہیں۔ اس سے گنہگار کے گناہ گویا چھپائے  جاتے ہیں۔اوران کے سبب سے انسان اور خدا کے درمیان جدائی کا پردہ حائل تھا۔ وہ اٹھ جاتاہے اورانسان خدا سے میل حاصل کرلیتا ہے ۔ پس کفارہ ایسا ذریعہ  ہے۔ جس  کے وسیلہ سے گنہگار  انسان واصل باالله ہوسکتاہے ۔ چنانچہ انجیل شریف  میں مرقوم ہے کہ" خدا نے سیدنا مسیح میں ہوکر جہان کو اپنے آپ سے ملالیا"۔

          کفارہ کی تعلیم پر غور کرتے وقت یہ حقیقت  نہایت صاف طورپر  پیش نظر آجاتی ہے کہ تمام دنیا کے لوگ کسی نہ کسی  صورت میں قربانی کی تعلیم  کے معتقد  ہیں گویا انسان کے دل پر کندہ کیا گیا ہے کہ " بغیر  خون بہائے  معای نہیں ہوسکتی"۔ مہذب یا غیر مہذب  اور گورے یا کالے غرض ہر قوم کے لوگ قربانی کو گناہوں کی معافی کا ایک ذریعہ  سمجھتے ہیں۔ ہر زمانہ میں انسان نے اس حقیقت  کو بخوبی پہچانا ہے کہ نیک اعمال یا توبہ کے آنسوؤں سے نہ عدل کا تقاضا پورا ہوتاہے اورنہ گنہگار گناہوں کی سزا سے بری کیا جاسکتا ہے۔ بنی آدم کی تواریخ  سے معلوم ہوتاہے کہ گناہ کی سزا سے بچنے کی کوشش میں مندروں اور معبدوں میں خون کی نہریں جاری رہی ہیں۔

          انسان کے دل میں یہ کفارہ دینے کی خواہش ایسی زبردست اورگناہ دور کرنے کے لئے قربانی کی صورت کا احساس  ایسا طبعی  ہے کہ خود محمدﷺ بھی اس کو نظر انداز نہ کرسکے ۔ چنانچہ انہوں نے عید بقر کی قربانی مقرر کرنے میں کسی قدر قربانی کی ضرورت اوراس کے خاص باعث کو مانا ہے یا یوں کہیں کہ کم سے کم  اپنے پیروؤں  کی اس دلی خواہش  کو جسے دبانہیں سکتے تھے۔ پورا کرنے کی  کوشش کی ہے۔ لکھاہے کہ آنحضرت ﷺ نے عید بقر کی رسم مقرر کرکے دوبکریاں لیں اوران کو ایک ایک  کرکے قربان کیا۔ اورکہا " اے خداوند میں اپنی ساری قوم کے لئے یہ قربانی گزرانتا ہوں۔ ان سب کے لئے  جو تیری  وحدت اورمیری رسالت پر شہادت  دیتے ہیں اے خداوند ! یہ محمد ﷺ اورمحمدﷺ کے تمام خاندان کے لئے ہے"۔ پھر ایک بڑی  مشہور کتاب مشکواة المصباح کے چوتھے باب میں مرقوم ہے کہ انسان نے قربانی کے روز خدا کی خوشنودی  کے لئے خون بہانے سے  بڑھ کر کوئی کام نہیں کیا ۔ کیونکہ  چوپایہ  قربان کو جاتاہے  ۔وہ قیامت  کے روز اپنے  سینگوں، بالوں اور رسموں سمیت  آکر میزان ِعدل میں نیک اعمال کے ساتھ شامل ہوکر تلیگا۔ قربانی کا خون زمین پرگرنے سے پیشتر  خدا کے حضور  پہنچتاہے۔ اورقبول ہوتاہے۔ اسلئے  خوشی کرو" اسی حدیث کے مطابق  یہ بھی لکھاہے ۔ کہ عید الضحیٰ  کے دن وضو کرتے وقت  تکبیر پڑھنے  کے بعدیوں کہنا چاہیے " اے خدا اس قربانی کو میرے گناہوں کے کفارہ  میں قبول فرما۔ میرے دین کو پاک اوربدی کو مجھ سے دور کردے۔  " محمدﷺ  کے ان اقوال سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ انہوں نے کم سے کم کسی حد تک  تو کفارہ کی کفایت کو مانا ہے۔ اور حق تو یہ ہے کہ کوئی  عقلمند آدمی کفارہ کی عظیم الشان حقیقت  کا انکار نہیں کرسکتا۔ کیونکہ یہ صفحہ ہستی کے پتے پتے  پر جلی قلم سے  سنہرے حروف  میں مرقوم ہے۔ علاوہ بریں  یہ بات  بھی ہر جگہ  نظر آتی ہے کہ ایک کی موت اورتباہی دوسروں کی صحت وزندگی کی دلیل سے نباتات  کھائی جاتی ہے اورچوپایہ کو زندگی اور قوت بخشتی ہے اورپھر وقت پر اس سے انسان کی پرورش ہوتی ہے۔

          پس اگر دیدنی دنیا میں خدا کا یہ قانون پایا جاتاہے تو کیا ہم روحانی دنیا میں بھی اس کی مثال دیکھنے کے لئے  معقول طورپر امیدوار نہیں ہوسکتے؟ لیکن یہ سوال  پیش آتاہے کہ گناہ کا مناسب کفارہ کیا ہے؟ بہت سے مذاہب  میں شخصی  نجات دہندہ  اورکفارہ کی ضرورت بڑی صفائی  سے دکھائی جاتی ہے۔  لیکن ان تمام مذاہب میں کفارہ نجات دہندہ نہیں ہوسکتا بلکہ گنہگار  خودہی اس کا انتظام کرتاہے۔ اگر اس معاملہ پر تھوڑا سا بھی غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوجائے گا۔ کہ صرف نجات دہندہ ہی انسان کے گناہوں کا لائق ومناسب کفارہ دے سکتاہے۔ گنہگار  اگر خود کفارہ دے تو وہ کفارہ بھی گناہ آلودہ ہونے کی وجہ سے  بے تاثیر  ٹھہریگا۔ پس انسان کو الہیٰ نجات  دہندہ کی ضرورت ہے۔ جوخودبالکل پاک وبے عیب ہونے کے سبب سے اس کے گناہوں کا کفارہ دے سکے۔

          انجیل شریف میں ایسے نجات دہندہ  کا بیان پایا جاتاہے ۔ اگرچہ وہ بالکل بے گناہ تھا توبھی جہان کے گناہوں کے کفارہ میں اس نے اپنی جان دیدی۔  توریت شریف  کے مطالعہ سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل  کو طرح طرح  کی قربانیاں  گذارننے کا حکم دیا۔ لیکن وہ سب قربانیاں نظیر ونمونہ  کے طورپر  اس حقیقی  قربانی کی طرف اشارہ کرتی تھیں جو بعد میں ہونے والی تھی۔ پھر بھی وہ قربانیاں قوم یہود کو کفارہ  کی ضرورت دکھانے اور قوت پر مسیح کی قربانی کوقبول کرنیکے واسطے تیار کرنیکے لئے کافی تھیں۔ گزشتہ زمانہ کی ان قربانیوں کے بارہ میں انجیل شریف میں یوں مرقوم ہے ۔ کہ شریعت جس میں آئندہ کی اچھی چیزوں کا عکس ہے اوران چیزوں کی اصلی صورت نہیں۔ ان ایک ہی طرح کی قربانیوں سے جوہر سال بلاناغہ گزارنی جاتی ہیں۔ پاس آنے والوں کو ہر گز کامل  نہیں کرسکتی؟ ورنہ ان کا گزرا ننا موقوف نہ ہوجاتا  ؟ کیونکہ  جب عبادت  کرنے والے ایک بار پاک ہوجاتے توپھر ان کا دل انہیں گنہگار نہ ٹھہراتا۔ بلکہ وہ قربانیاں سال بہ سال گناہوں کو یاددلاتی ہیں۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ بیلوں اوربکروں کا خون گناہوں  کو دورکرے۔ اسی لئے وہ دنیا میں آتے وقت کہتاہے کہ تونے قربانی اورنذر کو پسند نہ کیا بلکہ میرے لئے  ایک بدن تیار کیا۔ پوری سوختنی  قربانیوں اور گناہ کی قربانیوں سے تو خوش نہ ہوا"۔ اس وقت  میں نے کہا کہ دیکھ ! میں آیا ہوں۔۔۔۔ غرض وہ پہلے  کو موقوف کرتاہے تاکہ  دوسرے کو قائم کرے۔ لیکن یہ شخص  ہمیشہ کے لئے گناہوں کے واسطے ایک ہی قربانی گزران کو خدا کی دہنی طرف جا بیٹھا( عبرانیوں ۱۰: ۱تا ۱۰)۔ انجیل شریف کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ جن قربانیوں کا توریت  شریف میں ذکر پایا جاتاہے ۔ وہ صرف مسیح کے عظیم الشان اورعالمگیر  کفارہ کی طرف اشارہ کرتی تھیں ۔

          توریت وزبور اوردیگر صحف ِ انبیاء میں مسیح کے کفارہ کے حق میں بہت سی صاف وصریح پیشین گوئیاں مندرج ہیں۔ چنانچہ یسعیاہ نبی کی کتاب کے ۵۳ باب کی ۴، ۶، ۱۰تا ۱۲ آیات میں یوں مرقوم ہے۔

          " اس (مسیح) نے ہماری مشقتیں اٹھالیں اورہمارے غموں کو برداشت کیا۔پر ہم نے اسے خدا کا مارا کوٹا اورستایا ہواسمجھا۔حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائیل  کیا گیا اورہماری بدکرداری کے باعث کچلاگیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اس پر سیاست  ہوئی تاکہ  اس کے مارکھانے سے ہم شفاپائیں ۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہرایک اپنی راہ کو پھرا اور خداوند نے ہم سب کی بدکرداری اس پر لادی۔ لیکن خداوند کو پسند آیا کہ اسے کچلے۔ اس لئے اسے غمگین کیا ۔ جب اس کی جان گناہ کی قربانی کے لئے گذرانی جائیگی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا۔اس کی عمر دراز ہوگی ۔ اور خداوند کی مرضی اس کے ہاتھ کے وسیلہ سے پوری ہوگی۔ اپنی جان ہی کادکھ اٹھاکر وہ اسے دیکھے گا اور سیر ہوگا۔ اپنے ہی عرفان سے میرا صادق خادم بہتوں کو راستباز ٹھہرائیگا۔ کیونکہ وہ ان کی بدکرداری خود اٹھائیگا۔ اس لئے میں اسے بزرگوں کے ساتھ حصہ دونگا۔ اور وہ لوٹ کا مال زورآوروں کے ساتھ بانٹ لیگا۔ کیونکہ اس نے اپنی جان موت کے لئے انڈیل دی ۔ اور وہ خطاکاروں کے ساتھ شمار کیا گیا توبھی اس نے بہتوں کے گناہ اٹھالئے اور خطاکاروں کی شفاعت کی"۔

          اس مقام پر یہ بخوبی یادر ہے کہ مسیح کے کفارہ کے بارہ میں اوربہت سی پیشین گوئیاں یہودیوں کی مقدس کتابوں میں موجودہیں۔ حال کے بعض مسلمان مسیح کی موت کو نہیں مانتے۔ لیکن باوجود اس سخت دشمنی کے یہودیوں اورمسیحیوں  میں ہمیشہ سے چلی آئی ہے۔ اورباجودیکہ  یہودی قوم نے مسیح کو نبی تک نہیں مانا توبھی یہودیوں کی کتابوں میں یہ سب پیشین گوئیاں  پاتی جاتی ہیں۔لہذا کوئی  منصف مزاج مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ مسیح کی موت  کے بیانات  مسیحیوں نے کتب یہود میں زائد کردئیے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ خدا نے مسیح کو بھیجنے سے پیشتر ہی نظیروں اور پیشین گوئیوں کے وسیلہ سے مسیح کی آمد کی خبردی جو جہان کے گناہوں کا کفارہ دینے کے لئے آنے والا تھا۔

          پھر وقت  پر سیدنا مسیح نے پیشین گوئیوں کے مطابق دنیا میں آکر صلیبی موت کے ذریعے  سے تمام بنی آدم کے گناہوں کا کامل کفارہ  دیا۔ چنانچہ انجیل شریف میں وہ خود باربار اسی بھاری کام کو اپنی آمد کا سبب بیان کرتاہے۔ مثلاً لکھا ہےکہ " جس طرح موسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اونچے پر چڑھایا ۔ اسی طرح  ضرور ہے کہ  ابن آدم (مسیح)بھی  اونچے  پرچڑھایا جائے۔ تاکہ جوکوئی  ایمان لائے اس میں ہمیشہ کی زندگی پائے۔(یوحنا ۳: ۱۴، ۱۵)" ابن آدم اس لئے نہیں آیا۔ کہ خدمت لے۔ بلکہ اس لئے کہ خدمت کرے اوراپنی جان بہتروں کے بدلے فدیہ میں دے"(متی ۲۰: ۲۸) پھر انجیل شریف  میں ایک اور مقام پر مسیح کے حق میں یوں مرقو م ہے"۔ وہی ہمارے گناہوں کاکفارہ ہے ۔ اور نہ صرف ہمارے گناہوں کا بلکہ تمام دنیا کے گناہوں کا بھی"(۱یوحنا ۲: ۲) اور پھر مرقوم ہے کہ" اس کے بیٹے عیسیٰ کا خون ہمیں تمام گناہ  سے پاک کرتا ہے"۔(۱یوحنا ۱: ۷)ایک مرتبہ  یوحنا اصطباغی  نے عیسیٰ مسیح کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ دیکھو یہ خدا کا برہ ہے۔ جو دنیا کاگناہ اٹھالے جاتا ہے"۔ (یوحنا ۱: ۲۹) پس توریت اورانجیل دونوں سے معلوم ہوتاہے کہ مسیح کے مجسم ہونے کا خاص مطلب و مقصد یہ تھا کہ صلیب پر جان دے کرگناہوں کا کفارہ دینے سے عدل کا تقاضا پورا کرے تاکہ خداتائب گنہگاروں  کو معاف کرسکے۔ اس طرح سے مسیح نے ہمارے عوض میں سزا اٹھائی، ناراستوں کے بدلے اس راستباز پر سیاست  ہوئی ۔ تاکہ وہ ہم کو خدا سے ملادے ۔ کفارہ کے اس بھاری کام کے وسیلہ سے جو مسیح نے  کیا۔ انسان کے دل کی خدا سے ملنے کی زبردست  خواہش اورحقیقی آرزو پوری ہوئی۔

          اب ہم ختم کرنے سے پیشتر اس بے بہا کفارہ پر دو پہلوؤں سے نظر کرینگے  اول ہم یہ بات بخوبی ذہن نشین کرلیں کہ برضا مندی خود تھا۔ بہت سے  لوگ اس حقیقت  کو نظر انداز کرکے کہتے ہیں کہ دوسرے کے گناہوں کے لئے ایک بے گناہ کو سزا دینا سخت بے انصافی کی با ت تھی۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی رحمدلی سے کسی دوسرے مصیبت  زدہ کا قرض ادا کردے تو (اگرچہ اس میں اس کو سخت تکلیف بھی برداشت کرنی پڑے) کیا یہ بے انصافی  کا کام خیال کیا جائے گا؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ اس خودانکاری اور خودنثاری  کے کام کے سبب سے لوگ اس کی عزت وتعریف کریں گے۔ اسی طرح  سے مسیح نے اپنی خوشی سے بہتیروں کے فدیہ میں اپنی جان دی۔ لہذا مسیح کے ہمارے گناہ اٹھا لینے  میں کچھ بے انصافی  نہ تھی۔ اس نے خود فرمایا ہے" میں اپنی بھیڑوں کےلئے اپنی جان دیتا ہوں"۔

          مسیح کے کفارہ کا ایک بڑا قابل لحاظ پھل یہ ہے کہ جب اس کا مطلب ٹھیک طور سے سمجھ لیا جاتاہے۔ تو گنہگار گناہ کو بالکل  ایک اورہی نظر سے دیکھنے  لگتاہے۔ اوراس کی نگاہ میں گناہ کی ماہیت کچھ اور ہی ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ اگرخدا بآسانی  گناہ معاف کرسکے تو اس کا نتیجہ  یہ ہوگا۔ کہ انسان بے خوف وغم گناہ کرتا چلا جائے گا۔ لیکن جب انسان دیکھتاہے کہ گناہ کی معافی کس طرح سے حاصل ہوئی ہے۔ اورکیا تاوان دیا گیا ہے۔ اورجب صلیبی  موت کی تکلیف  ودرد ناک جان کنی  یاد کرتاہے۔ اوران تمام مصیبتوں  پر سوچتا ہے جو مسیح  نے اس کے لئے  اٹھائیں۔ تب وہ گناہ کی بے حد مکروہ صورت کودیکھتاہے اوراس سے بدرجہ غائت  متنفر ہوتاہے۔علاوہ بریں مسیح کو صلیب پر قربان ہوتے دیکھ کر پاکیزہ زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتاہے۔ ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں کہ سزا سے عموماً  انسان کا دل سخت ہوجاتاہے۔ درحالیکہ  اگر گناہ کی معافی  بآسانی  حاصل  ہو تو گنہگار کو بدکاری پر اوربھی جرات  اورجسارت  ہوتی ہے۔ لیکن جب انسان اس خداداد ذریعہ نجات  پر سوچتا ہے تو اس کا دل شکرگزاری سے بھرجاتاہے اور وہ اسے خوش  کرنے کا ازبس  آرزومند  ہوتاہے۔جس نے اس کے لئے اپنی جان دی۔ چنانچہ انجیل شریف میں مرقوم ہے کہ وہ (مسیح)آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر لئے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا۔ تاکہ ہم گناہوں کے اعتبار سے  مرکر راست  بازی کےاعتبار سے  جئیں"(۱۔پطرس ۲: ۲۴) پس نتیجتہً  جو کچھ مسیح نے ہمارے لئے کیا۔اس کاپھل ہماری عملی زندگی  سے ظاہر ہوگا۔  کیونکہ  اس کے کفارہ اور ہمارے چال چلن میں اختلاف  نہیں ہوسکتا۔ بہت سے کوتاہ اندیش  لوگ اس بات  کو بھول کر خیال کرتے اور کہتے ہیں کہ " اب چونکہ  گناہ کا کفارہ  دیا گیا ہے۔ اور قرض  ادا ہوچکا ہے۔ لہذا جو چاہیں  سوکریں"۔ لیکن ایسا تو ہر گز نہیں ہو سکتا۔ انجیل شریف  میں صاف مرقوم ہے کہ" ایمان بغیر اعمال کے مردہ ہے"۔ سچ تو یہ ہے کہ جو لوگ اس قسم کی باتیں  کرتے ہیں۔ انہوں نے مسیح  کے کفارہ کو مطلق نہیں سمجھا۔ کیونکہ جو شخص  سچے دل سے مسیح کی شفاعت  کے کام پر بھروسہ رکھتاہے۔ ضرور دل وجان سے پوری کوشش کریگا۔  کہ پاکیزہ زندگی سے اسے خوش کرے۔ کیا اس دنیا میں  یہ بات سچ نہیں ہے کہ جس قدر کوئی  شخص ہمارے فائدہ کے لئے خودانکاری اور خود نثاری کرتاہے۔ اسی قدر ہم اس کے شکر گزار ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کی مرضی پوری کرنے  میں زيادہ سرگرمی سے کوشش کرتے ہیں۔

          اب ہم اس بات پر غورکریں کہ " کفارہ کی عظیم الشان حقیقت سے خدا کا جلال کس قدر ظاہر ہوتاہے۔دیگر مذاہب کی کفارہ کی قربانیوں سے ایسا ظاہر ہوتاہے کہ خدا نہایت قہر وغضب سے پرُ اور ظالم ہے اوراپنے پرستاروں کی قربانیوں سے اس کا غصہ دھیماکیاجاتاہے ۔ لیکن انجیل شریف سے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا خود قربانی کا انتظام کرتا اورقربانی بہم پہنچاتا ہے اور شریعت کے مطالبہ کوپورا کرنے کی تدبیر کرتاہے۔ تاکہ تائب گنہگار معافی ومغفرت حاصل کرسکے۔ چنانچہ مرقوم ہے کہ اس (خدا ) نے ہم سے محبت کی اورہمارے گناہوں کے کفارہ کےلئے اپنے بیٹے کو بھیجا"۔ (۱یوحنا ۴: ۱۰) یہ کیسی عجیب محبت ہے ۔ خدا ہم سے قربانی طلب نہیں کرتا ۔ بلکہ خود عنایت کرتاہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ خدا اپنی محبت  کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتاہے کہ جب ہم گنہگارہی تھے تومسیح ہماری خاطر موا"۔(رومیوں ۵: ۸)۔

          اس کے سوانح حیات کے اورجتنے طریقے انسان کے خیال میں آئے ہیں۔ ان میں سے کسی میں بھی خدا کی ذات  کی ایسی عظمت  وبزرگی نظر نہیں آتی۔

          آخر میں اب ہم مسلمان صاحبان  سے پوچھتے ہیں کہ آپ اپنے گناہوں کی معافی کےلئے کس پر بھروسہ رکھتے ہیں ؟۔ آپ کے اپنے اعمال تونجات کا وسیلہ نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ خدا کی نظر میں  گندے چیتھڑوں  کی مانند ہیں۔ اورمحض  تویہ بھی خدا کی پاک شریعت  کے تقاضے  سے بچا نہیں  سکتی۔ پس مسیح کی کفارہ  کی موت اور کفارہ پر بھروسہ کرو۔ اوراسی کو خدا کی طرف سے  نجات اورابدی  زندگی کا ذریعہ سمجھو۔ لاکھوں بنی آدم  اس پر بھروسہ کرکے دلی  آرام اورسلامتی  حاصل کرچکے ہیں ۔ اس کی ملائمت  اوررحم  سے پرآواز کو سنو۔ وہ فرماتاہے " اے محنت اٹھانے والو ! اوربوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ میں تم کو آرام دونگا "(متی ۱۱: ۲۸)۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, نجات, اسلام, مُحمد, غلط فہمیاں, تفسیر القران | Tags: | Comments (1) | View Count: (20386)

Comments

Comment function is not open
English Blog