en-USur-PK
  |  
18

بائبل مُقَدَّس کی صداقت

posted on
بائبل مُقَدَّس کی صداقت

Accuracy of the Word of God

بائبل مُقَدَّس کی صداقت

1 - وحدتِ بائبل

ہم سب حقیقت کی تلاش میں ہیں- ہم میں سے بعض لوگوں نے اِس حقیقت کو پالیا ہے اور باقی اِس جستجو کو جاری رکھے ہوئے ہیں- آپ یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ اِس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت خود خدا ہے- اگر ہم تمام علوم حاصل کرلیں لیکن ذاتِ باری تعالٰے سے لاعلم رہیں تو ہمیں کچُھ فائدہ نہیں-

لیکن اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم محدود انسان اپنے محدود علم اور محدود ذہن کے ساتھ خدا کو جو لامحدود ہے جان نہیں سکتے- پس لازم ہے کہ خدا خود اپنے آپ کو ہم پر ظاہر کرے اور اُس نے ایسا کیا بھی- چنانچہ اُس نے مختلف اوقات میں، مختلف مقامات پر مختلف لوگوں کو چُنا تاکہ اُن کے ذریعے اپنے آپ کو ظاہر کرے- یہ لوگ جنہیں خدا نے اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لئے چُنا انبیاء کہلائے- خُدا کے اِن برگزیدہ بندوں نے اُس کے پیغام کو لوگوں تک زبانی اور تحریری دونوں صورتوں میں پہنچایا-

وُہ متعدد کتابیں جو اِن انبیائے کرام کی معرفت ہم تک پہنچی ہیں، اُن کے مجموعہ کو ہم کتابِ مُقدّس یا بائبل کہتے ہیں- اس کے دو حصّے ہیں- ایک پرانا عہد نامہ جو توریت-   )پیدائش، خروج، احبار، گنتی اور استثنا ( ،  زبور اور صحائفِ انبیاء پر مشتمل ہے-دوسرا حصّہ نیا عہد نامہ کہلاتا ہے جو اناجیل، خطوط اور مکاشفہ کی کتاب پرمشتمل ہے- عجیب وغریب بات جو یہاں ہمارے سامنے آتی ہے یہ ہے کہ بائبل مُقدّس ایک کتاب نہیں بلکہ بہت سی کتابوں کا مجموعہ ہے- اِس کا لکھنے والا، ایک شخص نہیں بلکہ چالیس سے زیادہ افراد ہیں-

پھر اِس پر مستزادیہ کہ وہ تمام افراد ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے- وہ مختلف زمانوں مختلف مقامات پر رہتے تھے- اُن کی اپنی حیثیت بھی مختلف تھی- اُن میں کوئی بادشاہ تھا تو کوئی چرواہا، کوئی ماہی گیر تھا تو کوئی بہت بڑا عالم- اگر ایسے لوگوں کی تصنیفات کو جو مختلف پس منظر، مختلف زمانہ اور مختلف اہلیت کے حامل ہوں اور جن کی پہلی تصنیف اور آخری تصنیف میں 1600 سال کا عرصہ ہویک جا جمع کردیا جائے تو ظاہر ہے کہ اُن میں کوئی وحدت نہیں پائی جائے گی- ہم اپنے تجربہ سے بھی جانتے ہیں کہ جب ہم ایک ہی موضوع پردو مختلف مصنفین کی کتابیں پڑھتے ہیں تو اُن میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے-

لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ جب ہم بائبل مُقدّس کا مطالعہ کرتے ہیں جو 66 کتابوں کا مجموعہ ہے تو اُس میں بے حد وحدت پاتے ہیں- ایسا محسوس ہوتا ہے گویا ایک ہی کتاب پڑھ رہے ہیں- یہ وحدت جو انسانی طور پر نا ممکن ہے اِس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ بائبل کے تمام مصنفین کے پسِ پشت کوئی مافوق الفطرت قوت یا ذہن کام کر رہا تھا اور ہم جانتے ہیں کہ وہ ذہن خدا کا ذہن تھا- اگر ایسا نہ ہوتا تو اُن کے درمیان بھی اختلافات پائے جاتے اور اُن میں تطبیق نہ ہوتی-

بائبل مُقدّس کا حقیقی مُصنف خدا ہی ہے جس نے اپنا پیغام ہم جیسے انسانوں کے وسیلے سے ہم تک پہنچایا- لیکن اُس نے اُن افراد کو مشین یا اِملا لکھنے والوں کے طور پر استعمال نہیں کیا بلکہ اُنہوں نے خُدا کے پیغام کو اپنے الفاظ، اپنی قابلیت اور اپنی طرزِ تحریر کے مطابق لکھا- یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ہر کتاب کی زبان اور طرز دوسروں سے مختلف ہے تاہم اُن کے مضمون میں تسلسُل اور وحدت پائی جاتی ہے- اس حقیقت کی طرف عبرانیوں کے خط کا مصّنِف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ

اگلے زمانہ میں خدا نے باپ دادا سے حصّہ بہ حصّہ اور طرح ہر طرح نبیوں کی معرفت کلام کرکے اِس زمانے کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا ۔ ۔ ۔ )عبرانیوں (2,1:1 -

اس حوالے میں اِس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ خدا نے مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء کی معرفت کلام کیا اور اب اُس کلام کو یسُوع المیسح میں پایہُ تکمیل کو پہنچایا، یعنی جو کلام انبیاء کو دیا گیا وہ میسح میں پُورا ہوتا اور اِختتام کو پہنچتا ہے- چناچہ اگر ہم پرانے عہد نامہ یعنی توریت، زبور، صحائفِ انبیاء کو نہ پڑھیں تو ہم نئے عہد نامہ یعنی انجیل کو نہیں سمجھ سکتے- اور یہ اس بات کا ایک واضح ثبوت ہے کہ بائبل مُقدّس میں کامل وحدت پائی جاتی ہے-

2 - حقانیتِ بائبل

 لیکن ممکن ہے کہ کتابِ مُقدّس کا مطالعہ کرتے وقت کِسی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوکہ:

جو کچھ میں پڑھ رہا ہوں کیا وہ واقعی خدا کا کلام ہے؟ ایسا تو نہیں کہ کچھ لوگوں نے خود لکھ کر اُسے خُدا سے منسُوب کر دیا؟

یہ سُوالات اِس لئے اُٹھتے ہیں کہ ہم ایسے دَور میں رہ رہے ہیں جہاں ہر بات کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے- پھر کسی کے ذہن میں یہ سوال بھی اُٹھ سکتا ہے کہ کہیں مُدعی سُست اور گواہ چُست والا معاملہ تو نہیں !

ہم تو یہ کہتے ہیں کہ بائبل خدا کا کلام ہے لیکن کیا بائبل بھی یہ گواہی دیتی ہے؟ پس آیئے ہم پہلے بائبل مُقدّس سے دیکھیں کہ وہ اپنے متعلق کیا کہتی ہے- حضرت یرمیاہ نبی اپنے صحیفے میں فرماتے ہیں:

تب خداوند نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے منہ کو چھُوا اور خداوند نے مجھے فرمایا دیکھ میَں نے اپنا کلام تیرے مُنہ میں ڈال دیا (9:1) -

یہاں نبی واضح الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ یہ کلام اُس کا اپنا نہیں بلکہ خُدا کا ہے- ایک اور نبی حضرت یسعیاہ کے صحیفے میں ارشادِ خداوندی ہے:

میری رُوح جو تجھ پر ہے اور میری باتیں جو میَں نے تیرے منہ میں ڈالی ہیں تیرے منہ سے اور تیری نسل کے منہ سے اور تیری نسل کی نسل کے منہ سے اب سے لے کر ابد تک جاتی نہ رہیں گی-

خداوند کا یہی ارشاد ہے )یسعیاہ 21:59 ( -

اِس حوالے میں کچھ باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں- پہلی یہ کہ خُدا کی رُوح نبی پر تھی اور اُس نے اپنی باتیں اُس کے منہ میں ڈالیں- مطلب یہ کہ نبی جو کچھ کہہ رہا تھا وہ خدا کے رُوح کے ویسلے سے کہہ رہا تھا اور وہ باتیں خدا کی باتیں تھیں- دوسری یہ کہ یہ کلام کبھی بدلے گا نہیں- کبھی جاتا نہ رہے گا بلکہ نسل در نسل اِسی طرح دُہرایا جاتا رہے گا اور اِس کے پیچھے سب سے بڑی سندیہ ہے کہ یہ خداوند کا ارشاد ہے- یہ اُس کا حکم ہے- اِسے کوئی بدل نہیں سکتا- اس کی کہی ہوئی بات کبھی جُھوٹی نہیں ہوسکتی- ایک اور بزرگ یعنی حضرت داؤد فرماتے ہیں:

خُداوند کی رُوح نے میری معرفت کلام کیا اور اُس کا سُخن میری زبان پر تھا 2) - سموئیل (2:23  -

اِس سلسلے میں ہم اَور بھی حوالے پیش کرسکتے ہیں، تاہم طوالت کے خوف سے اِتنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں-

اب ہم میسح خداوند کی گواہی کو پیش کرتے ہیں- آپ اپنے حواریوں سے فرماتا:

بولنے والے تم نہیں بلکہ تمہارے باپ کا رُوح ہے جو تم میں بولتا ہے متّی 20:10-

چنانچہ انجیل جلیل میں حواریوں نے جو کچھ فرمایا وہ باپ کے روح یعنی خود خدا کا فرمایا ہُوا ہے کیونکہ وہ اُن میں بولتا تھا- اِس سلسلے میں ایک اور حوالہ پیش کرتے ہیں- اور اِس کی ضرورت اِس لئے پیش آئی کہ اِس میں نہ صرف اِس بات وضاحت موجود ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے بلکہ یہ بھی کہ انبیائے کرام سے غلطی نہیں ہوئی- پطرس رسول فرماتے ہیں:

کتاب مُقدّس کی کسی نبّوت کی بات کی تاویل کسی ذاتی اختیار پر موقوف نہیں- کیونکہ نبّوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی رُوح القدُس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے ) 2- پطرس   (21-20:1 -

یہ ایک بہت بڑی اور بہت اہم گواہی ہے کہ کتاب مُقدّس میں کسی نبی یا رسول نے اپنی طرف سے کبھی کوئی بات نہیں کہی- جب خدا نے اُسے کہا تب وہ بولا اور اُسے من وعَن لوگوں تک پہنچا دیا- اِس سے بڑھ کر اور کوئی گواہی نہیں ہوسکتی-

اگرچہ اِس کا براہ راست حقانیت بائبل سے تعلق نہیں تو بھی یہاں اِس بات پر غور کرنا مفید ہوگا کہ آخر خدا کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ وہ اِتنے انبیاء کی معرفت ہم سے کلام کرے؟ اس سوال کا جواب عبرانیوں 4-1:1 میں ملتا ہے:

اگلے زمانہ میں خدا نے باپ دادا سے حصّہ بہ حصّہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کرکے اِس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا جِسے اُس نے سب چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جِس کے وسیلے سے اُس نے عالَم بھی پیدا کئے- وہ اُس کے جلال کا پَر تَو اور اُس کی ذات کا نقش ہوکر سب چیزوں کو اپنی قُدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے- وہ گناہوں کو دھوکر عالَِم بالا پر کبریا کی دہنی طرف جا بیٹھا -

اِس حولے میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مختلف انبیائے کرام کی معرفت کلام کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگ خدا اور حضور المیسح کے بارے میں جانیں- کیونکہ اگر وہ المیسح کے بارے میں نہیں جانتے تو وہ اپنے گناہوں سے مخلصی حاصل نہیں کرسکتے- خدا نے جب دیکھا کہ انسان گناہ میں گرگیا ہے تو اُس نے اُن کو نجات کا راستہ دکھایا- انبیاء اسی راستے کی گواہی دینے آتے رہے- اور آخر میں وہ راستہ خود آگیا اور اُس نے کہا:

راہ اور حق اور زندگی میں ہوں یوحنّا ) 6:14 ( -

3 - ایک ثبوت

المیسح کی ولادت سے صدیوں پہلے کی بات ہے کہ بائبل کی سلطنت اپنے پورے عروج پر تھی- تاریخ دانوں کے بیان کے مطابق اُس کےقَلعوں کی دیواریں 200 دو سو فٹ بلند تھیں جن پر کئی رَتھ ایک دوڑ سکتے تھے- یونانی اپنے علم وفن میں اِنہی کے مرہونِ منت تھے- بابل کے دیوتا کا مندر ایک عجوبہ روزگار تھا- بابل کے معّلق باغات کا دنیا کے سات عجائبات میں شمار ہوتا تھا- یہ دنیا کا زرخیرز ترین علاقہ سمجھا جاتا تھا- اتنی بڑی سلطنت کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک دن یہ صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو جائے گی- لیکن خدا کے نبی حضرت یسعیاہ نے فرمایا:

بابل جو مملکتوں کی حشمت اور کسدیوں کی بزرگی کی رونق ہے سدوم اور عمورہ کی مانند ہو جائے گا جن کو خدا نے اُلٹ دیا- وہ ابد تک آباد نہ ہوگا اور پشت در پشت اس میں کوئی نہ بَسے گا- وہاں ہرگز عرب خیمے نہ لگائیں گے اور وہاں گڈرئے گلوّں کو نہ بٹھائیں گے- پربَن کے جنگلی درندے وہاں بیٹھیں گے اور اُن کے گھروں میں اُلوّ بھرے ہوں گے- وہاں شتر مرغ بسیں گے اور چھگمانُس وہاں ناچیں گے- گیدڑ ان کے عالیشان مکانوں میں اور بھیڑیئے اُن کے رنگ محلوں میں چِلاّئیں گے۔ ۔ ۔

تب تُو شاہ بابل کے خلاف یہ مَثل لائے گا اور کہے گا کہ ظالم کیسا نابوُد ہوگیا ! اورغاصب کیسا نیست ہُوا “! -

)یسعیاہ (4:14 – 19:13

خدا کے ایک اَور نبی نے فرمایا:

بابل کھنڈر ہوجائے گا اور گیدڑوں کا مقام اور حیرت اور سُسکار کا باعث ہوگا اور اُس میں کوئی نہ بسے گا

)یرمیاہ (37:51 -

جس وقت خُدا کے ان مُقدّس نبیوں نے یہ الفاظ ادا کئے، اُس وقت بابل دنیا کی ملکہ سمجھا جاتا تھا- اُسے سنہری شہر کے نام سے یاد کیا جاتا تھا- اِس شہر کا جِسے پوری دنیا کا دارالسلطنت سمجھا جاتا تھا تباہ ہوجانا حیرت انگیز بات ہے- کسی کے خواب وخیال میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ اتنی بڑی مملکت خواب بن جائے گی- بابل ایک زبردست مملکت تھی جس کے مقابلے میں یروشلیم کی حیثیت بڑی معمولی تھی- دونوں کی جنگ ہوئی اور یروشلیم بابل کا غلام بن گیا- لیکن وہی ہُوا جو خُدا نے کہا تھا- بابل کا نام صفئہ ہستی سے مٹ گیا اور یروشلیم آج تک زندہ ہے-

یہ بات قابل غور ہے کہ دنیا کے اہم شہر ایسی جگہ پر واقع ہوتے ہیں کہ اگر تباہ بھی ہو جائیں تو بھی دوبارہ آباد ہو جاتے ہیں - لیکن اس شہر کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ ابد تک آباد نہ ہوگا اور ایسا ہی ہُوا- اور کیوں نہ ہوتا ؟ خداوند کا کلام کبھی غط نہیں ہوسکتا-

دمشق، یروشلیم، اتیھنز، روم، اِنطاکیہ، سکندریہ اور صیدوم ہزاروں سال گزر نے کے بعد بھی موجود ہیں، اگرچہ تباہیوں اور بربادیوں نے ادھر بھی رُخ کیا لیکن آج بابل کہاں ہے؟ وہ بابل جو دنیا کا امیر ترین شہر تھا خاک میں مل گیا- علاوہ ازیں، خدا نے اپنے نبی کی معرفت یہ بھی فرمایا کہ وہاں عرب ہرگز خیمے نہ لگائیں گے-

ایک سیاّح نے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ میرے ساتھ عرب بھی تھےاور وہ اسلحہ سے لیس تھے لیکن مَیں انہیں کسی صورت میں قائل نہ کرسکا کہ وہ وہاں رات بسر کریں، کیونکہ بھوتوں کا خوف اُن کے دل سے نکالا نہیں جاسکتا- بہادر عرب اپنی شجاعت کے باوجود اس جگہ رات نہیں گزارتے-

بابل کی مضبوط فصیل کے بارے میں بھی صدیوں پہلے خدا نے کہہ دیا تھا کہ وہ گرادی جائے گی اور اُس کے بلند پھاٹک آگ سے جلا دیئے جائیں گے، اور ایسا ہی ہُئوا- آج رُوئے زمین پر یہ مضبوط فصیل نظر نہیں آتی- بائبل مُقدّس کی یہ صدیوں پرانی پیش گوئی اپنی تفصیل کے ساتھ پوری ہوگئی- اِس بڑی مملکت کے کھنڑرات زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ یہ انبیاء خدا کے فرستادہ تھے- اُن کا کلام خدا کا کلام تھا اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کتاب مُقدّس خدا کا کلام ہے- بائبل کی صداقت کی تصدیق آج بھی بابل کے کھنڑرات کر رہے ہیں-

4 - مرکزبِائبل

بائبل کی مرکزی شخصیت مسیح ہے- صفحئہ اوّل سے صفحئہ آخرتک اِسی کا ذکر ہے- وہی کتاب مُقدّس کی ابتدا اور وہی انتہا ہے- وہی اوّل اور وہی آخر ہے- اگر بائبل کے شروع میں اُس کی آمد کی پیشگوئی ہے تو اِس کے آخر میں اس کی آمدِ ثانی کی پُرامید پیشگوئی بھی ہے- غرضیکہ آپ کو بائبل کے ہر صفحے پر مسیح کا عکس نظر آئے گا-

بائبل کا حصّہ اوّل یعنی پرانا عہدنامہ المیسح کی آمد کی پیشگوئیوں پر مشتمل ہے اور بائبل مُقدّس کا دوسرا حصّہ یعنی نیا عہدنامہ ان پیشگوئیوں کی تکمیل ہے- پرانے عہدنامہ کے علماء نے جب ان پیشگوئیوں کا شمار کیا تو سینکڑوں نکلیں- اتنی ساری پیشگوئیوں کا ایک شحض میں جمع ہونا انسانی نکتہ نظر سے ناممکن نظرآتا ہے لیکن خدا کے نزدیک کچھ ناممکن نہیں-

یہ تمام پیشگوئیاں مسیح کی ذات میں پوری ہوئیں-

جب حضرت آدم نے خدا کی نافرمانی کی اور گناہ کے مرتکب ہوئے یعنی جب شیطان کا جو سانپ کی شکل میں ظاہر ہُوا حوّا کے ذریعے کہنا مانا تو خدا نے سانپ سے کہا کہ:

          ”میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت گا-

وہ تیرے سر کوکچلے گا اور اُس کی ایڑی پر کاٹے گا )پیدائش – (15-3

حضرت یعقوب نے بھی اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے کہا کہ:

یہوداہ سے سلطنت نہیں چھوٹے گی اور نہ اُس کی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہوگا

جب شیلوہ نہ آئے )پیدائش (10:49 -

حضرت داود کے والد یّسی کی نسل کے بارے میں حضرت یسعیاہ نے فرمایا:

          اور یّسی کے تنے سے ایک کونپل نکلے گی اور اُس کی جڑوں سے

ایک بار آور شاخ پیدا ہوگی )یسعیاہ – (1:11

یسعیاہ نبی ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا پیدا ہوگا – (14:7)

حضرت زکریاہ المیسح کے بارے میں کہا:

دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے- وہ صادق ہے اور نجات اُس کے ہاتھ میں ہے-

وہ حلیم ہے اور گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوار ہے )زکریاہ – (9:9

زبور میں اس بات کا ذکر ہے کہ اُس کا ایک رفیق اُسے دھوکا دے کر پکڑوائے گا- حضرت زکریاہ نے اس کی وضاحت کی کہ وہ شخص چاندی کے تیس سِکوّں کے عوض اپنے آقا سے غداری کرے گا- یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کے خلاف جھوٹی گواہی دی جائے گی لیکن وہ اپنے الزام لگانے والوں کے سامنے خاموش رہے گا- اُسے مارا پیٹا جائے گا اور اُس کے ہاتھوں اور پیروں میں کِیل گاڑے جائیں گے- اُس کے کپڑوں پر قرُعہ ڈالا جائے گا- وہ صلیب پر ہوگا تو اُس کا مزاق اُڑایا جائے گا اور اُسے پینے کے لئے سِرکا پیش کیا جائے گا- اُسے مصلوب تو کیا جائے گا لیکن عام دستور کے برخلاف اس کی ہڑیاں نہیں توڑی جائیں گی- وہ نبی نوع انسان کی خاطر قربانی پیش کرے گا تاکہ قرب اِلٰہی کی راہ کھولے- وہ تین دن مدفون رہے گا- اس کی لاش کے سڑنے کی نوبت نہیں آئے گی بلکہ وہ زندہ ہوجائے گا- غرض میسح پیدائش سے لے کر اُس کی موت اور جی اٹھنے تک پیشگوئیاں موجود ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل تک تکمیل کو پہنچی-

میسح کی آمد سے پیشتر یہ پیشگوئیاں اُمید کا پہلو لئے ہوئے تھیں- اُس کی آمد سے اس اُمید نے حقیقت کا روپ دھار لیا اور وہ جو تمام انبیاء کی آرزوؤں کا ماحصل تھا اپنے وقت پر ظاہر ہوا- تمام انبیاء کی نظریں اس کی طرف لگی ہوئی تھیں- وہ تمام انبیاء کے حسین خوابوں کی حسین تصویر تھا-

نبّوت کی ساری کرنیں اور شعاعیں ایک ہی نکتہ پر مرکوز تھیں اور وہ نکتہ میسح کی ذات تھی- تاریخ کے سارے دھارے اُسی کی طرف بہہ رہے تھے- انبیاء کا تمام کلام اُسی کی طرف اشارہ کرتا تھا- میسح کے بغیر انبیاء کا کلام صرف ایک آرزو، ایک تمنا اور خواہش رہ جاتا ہے- میسح اِس آرزو کی تکمیل اور ماحصل ہے- حضرت ابرہام جیسا اولوالعزم نبی اُس کا دن دیکھنے کی اُمید پر خوش تھا- )یوحنّا – (56:8

ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ خُدا نے ہمیں اس فضل کے زمانے میں پیدا کیا جبکہ ہم صرف اُمید پر زندگی بسر نہیں کرتے بلکہ اِس مجسم پیشین گوئی کو قبول کرسکتے اور حقیقت پر ایمان لاسکتے ہیں-

5 - حِفاظتِ بائبل

آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ہمارا کلام اور ہماری گفتگو ہماری شخصیت کی عکاسی کرتی ہے- جو کچھ ہمارے دل میں ہوتا ہے وہی ہماری زُبان پر آتا ہے- لوگ ہمارے کلام کے وسیلے سے پہچانتے ہیں کہ ہم کِس قسم کے انسان ہیں- ہم ایک عالِم شخص سے عالمانہ گفتگو کی توقع کرتے ہیں- اگر وہ جا ہلانہ باتیں کرے تو ہم فورا کہتے ہیں کہ یہ کیسا آدمی ہے؟ بعینہ ہم خدا کے کلام سے وہی توقع کرتے ہیں جو خدا سے کرتے ہیں- کیوں؟ اس لئے کہ کلام کسی کہ ذات کا آئینہ دار ہوتا ہے- جس طرح خُدا سچّا ہے، اُسی طرح اُس کا کلام سچّا ہے- جس طرح وہ لا تبدیل ہے اُسی طرح اُس کا کلام لا تبدیل ہے- بریں بِنا خداوند کریم نے جب اپنا کلام دیا تو لوگوں کو آگاہ کیا کہ وہ اس کے کلام کو کم کرنے یا بڑھانے کی جسارت کبھی نہ کریں- خدا نے حضرت سلیمان کی معرفت فرمایا:

          ”تُو اس کے کلام میں کچھ نہ بڑھانا )امثال – (6:30

حضرت موسٰی کی معرفت خدا نے لوگوں سے کہا کہ:

جس بات کا میں تم کو حکم دیتا ہوں اُس میں نہ تو کچھ بڑھانا اور نہ کچھ گھٹانا تاکہ تم خداوند اپنے خدا کے احکام کو میں تم کو بتاتا ہوں مان سکو )استشنا - (2:4

اِس حکم میں واضح طور پر دو باتوں کی ممانعت کی گئی ہے- ایک یہ کہ خُدا کے کلام میں کچھ بڑھایا نہ جائے اور دوسری یہ کہ اس میں سے کچھ کم بھی نہ کیا جائے، اور اس حکم کو نہ ماننے کی سزا بھی مقرر کی گئی- ہمیں مکاشفہ کی کتاب میں جوکہ بائبل کی آخری کتاب ہے یہ عبادت ملتی ہے:

میں ہر ایک آدمی کے آگے جو اس کتاب کی نبّوت کی باتیں سُنتا ہے

گواہی دیتا ہوں کہ اگر کوئی آدمی اُن میں کچھ بڑھائے تو خدا اِس کتاب

میں لکَھی ہوئی آفتیں اُس پر نازل کرے گا- اور اگر کوئی اِس نبّوت کی

کتاب کی باتوں میں سے کچھ نکال ڈالے تو خُدا اُس زندگی کے درخت

اور مُقدّس شہر میں سے جن کا اِس کتاب میں ذکرہے اُس کا حصّہ نکال

ڈالے گا   - (19-18:22)

ایک بات بالکل صاف ہے کہ وہ شخص جو کتابِ مُقدّس پر ایمان رکھتا ہے اُس میں سے گھٹانے یا اُس میں بڑھانے کی سوچ بھی نہیں سکتا، ورنہ ظاہر ہے کہ وہ اُس پر ایمان ہی نہیں رکھتا- یہ ناپاک جسارت وہی کرے گا جو اس کا دشمن ہے اور اُسے نقصان پہنچانا چاہتا ہے- پھر خُدا نے یہ بات صرف انسان پر ہی نہیں چھوڑی بلکہ اپنے انبیائے کرام کی معرفت جتلا دیا کہ میرا کلام کبھی نہیں بدل سکتا- چنانچہ یسعیاہ نبی خدا سے آگاہی پاکر فرماتے ہیں:

          ”ہاں گھاس مُرجھا جاتی ہے- پُھول کمُلاتا ہے پر ہمارے خدا کا کلام ابد تک قائم ہے )یسعیاہ - (8:40

چونکہ خدا خود لا تبدیل ہے اِس لئے اُس کا کلام بھی لا تبدیل ہے- پھر خدا، زبور 34:89 میں فرماتا ہے کہ:

مَیں اپنے عہد کو نہ توڑوں گا اور اپنے منہ کی بات کونہ بدلوں گا-

اب خداوند مسیح کی گواہی بھی ملا خطہ فرمائیں- آپ نے فرمایا:

          کتابِ مقدّس کا باطل ہونا ممکن نہیں )یوحنّا - (35:10

ایک اَور مقام پر فرماتے ہیں کہ:

          ”آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی ) “متی -(35:24

 مزید فرمایا:

          میَں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پُورا نہ ہو جائے )متّی – (18:5

جب ہم اِن حوالہ جات کو سامنے رکھتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ حقیقت اُبھر کر آتی ہے کہ خدا کا کلام، خواہ وہ توریت میں یا کسی اَور صحیفے میں مندرج ہے یا المسیح کی تعلیمات کی صورت میں ہے بدل نہیں سکتا- پس جب وہ بدل نہیں سکتا تو لازماً پورا ہوگا-

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہودیوں اور مسیحیوں نے مِل کر کتابِ مُقدّس میں ردو بدل کیا ہے- یہ محض ایک مفروضہ ہے- چونکہ معترضین مسیحی مذہبی تاریخ اور مسیحی کُتب سے واقف نہیں ہوتے اس لئے صرف سنی سنائی باتوں پر اعتبار کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں- ہمارے پاس متعدد ثبوت ہیں جن سے ظاہر ہے کہ بائبل مُقدّس جو آج ہمارے ہاتھوں میں ہے وہی ہے جو اُس وقت تھی- مثلا:

1 - 1947 میں اُردن کی وادی قمران سے کچھ قدیم نسخے ہاتھ کے لکھے ہوئے ملے ہیں- جب ہم اِن نسخوں کا بائبل کے موجودہ متن سے مقابلہ کرتے ہیں تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بائبل مُقدّس ہم تک محفوظ حالت میں پہنچی ہے اور اِس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی- علاوہ ازیں بائبل مقدس کے مختلف قلمی نسخے بھی موجود ہیں- مثلا نسخہ سکندریہ جو تقریبا 325  میں لکھا گیا، نسخہ واتکانی جو 300 میں تحریر ہُوا، نسخہ سینا جو چوتھی صدی عسیوی میں لکھا گیا اور نسخہ افرایئمی جو 450 میں لکھا گیا- یہ پرانے نسخے اب بھی موجود ہیں- علماء نے اِن کا مقابلہ موجودہ بائبل مُقدّس سے کیا ہے اور اِس نیتجہ پر پہنچے ہیں کہ بائبل آج بھی ہمارے پاس اُسی صورت میں محفوظ ہے جیسے کہ شروع میں تھی-

2 - خداوند مسیح کے آسمان پر جانے کے بعد شاگردوں نے خداوند کے فرمان کے مطابق دوسرے علاقوں اور قوموں میں انجیل کی منادی شروع کی- جُوں جُوں کلام پھیلتا گیا، اِس بات کی اشد ضرورت محسوس کی جانے لگی کہ انجیل کا ترجمہ لوگوں کی زبان میں کیا جائے- چنانچہ علماء نے پرانے اور نئے عہدناموں کا ترجمہ مختلف قوموں کی زبانوں میں کیا- اس وقت بائبل یا اِس کے حِصّوں کا تقریباً 2000 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے- ان تراجم کی موجودگی میں جو مختلف ممالک میں مختلف لوگوں کے ہاتھ میں اُس وقت موجود تھے یہ کیسے ممکن تھا کہ کوئی بائبل مُقدّس میں تحریف کرے؟ کوئی اپنے نسخے میں تو کرسکتا تھا لیکن تمام دنیا کے تراجم میں کیسے کرسکتا تھا؟ یہ ناممکن امر ہے-

3 - پھر ہمارے پاس آبائے کلیسیا کے وہ اقتباسات ہیں جو انہوں نے اپنی تحریرات میں کتاب مُقدّس میں سے پیش کئے- اور صرف یہی نہیں بلکہ مخالفین نے بھی مسیحیت کے خلاف جو کتابیں لکھیں اُن میں بھی انہوں نے بائبل سے اقتباسات پیش کئے- اُن اقتباسات کا جو بائبل کے حامیوں اور مخالفوں نے پیش کئے موجودہ بائبل سے مقابلہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ اب بھی ویسے ہی موجود ہیں جیسے کہ اُس وقت تھے-

4 - اور مزید یہ کہ جس طرح ہر مزہب کے لوگ اپنی اپنی متبرک کتابوں سے پیار کرتے ہیں اور اُس کی حفاظت اپنی جان سے بھی زیادہ کرتے ہیں، اُسی طرح یہودی اور مسیحی بھی اپنی کتب مُقدّسہ کو پیار کرتے ہیں- چنانچہ یہ بات عقل سلیم کبھی بھی تسلیم نہیں کرسکتی کہ ایک شخص جو ایک کتاب کو کلاُم الّٰلد مانے اور اُس پر ایمان بھی رکھے وُہ اُس میں تحریف کرے گا ! ہم مسیحی بھی اپنی کتب مُقدّسہ کو ویسے ہی عزیز رکھتے ہیں جس طرح کہ دیگر مزاہب کے پیروکار، اس لئے کبھی کوئی مسیحی یہ جسارت نہیں کرسکتا اور امر واقعہ یہ ہے کہ کبھی کِسی مسیحی نے تحریف کی ہی نہیں-

پس درجِ بالا اُمور کی روشنی میں یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بائبل مُقدّس میں کبھی تحریف نہیں ہوئی- یہ خدا کا کلام ہے جو مختلف انبیا کی معرفت ہم تک پہنچا ہے- اور جس طرح کہ خدا نے بتایا کہ اُس کا کلام بدل نہیں سکتا، بائبل مُقدّس بھی نہ تبدیل ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے-

حاصِل کلام

عزیز قارئین ! آپ نے مطالعہ کے دوران پیش کردہ دلائل کی روشنی میں محسوس کیا ہوگا کہ بائبل مُقدّس حقیقتاً خدا کا کلام ہے اور ردو بدل یا تحریف و تخریب سے قطعاً پاک ہے جیسا کہ بعض لوگ جنہیں تحقیق و تفتیش سے چنداں غرض نہیں یا جو حقیقتِ حال سے نا واقف ہیں الزام لگاتے ہیں-

بائبل مُقدّس اپنا ثبوت آپ ہے- یہ اپنی حقانیت اور صحت کے لئے کسی خارجی ثبوت کی محتاج نہیں- اس کی اندرونی شہادت اتنی زبردست ہے کہ اُسے رد کرنا آسان نہیں- مثلا اِس کی کتب اور مضامین میں جو وحدت ویگانگت پائی جاتی ہے اُس کی مثال دنیا میں کسی کتاب سے پیش نہیں کی جاسکتی- روئے زمین پر کوئی ایسی کتاب موجود نہیں جس کے متعدد مصنفین ہونے کے باوجود اُس میں ایسا تسلسل پایا جائے گویا کہ ایک ہی کتاب ہے- اگر آپ خالی الزہن ہوکر بائبل مُقدّس کو شروع سے آخر تک پڑھیں تو آپ بھی یہ محسوس نہ کرسکیں گے کہ آپ متفرق کتب پڑھ رہے ہیں- اِن میں حیرت انگیز یگانگت پائی جاتی ہے جو ایک دیانتدار قادی کی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں رہ سکتی-

پھر اس کی پیشگوئیاں اِس کے الہامی ہونے کا زندہ و جاوید ثبوت ہیں- اِس میں سینکڑوں پیشگوئیاں حالات واشخاص اور خاص طور پر حضور المسیح کی ذات کے بارے میں پائی جاتی ہیں- یہ پیشگوئیاں سینکڑوں سال پیشہتر کی گئی تھیں جن میں سے بیشتر حرف بحرف پوری ہوچکی ہیں- صرف ایک دن میں یعنی حضور المسیح کی تصلیب کے دن 33 پیشگوئیاں پوری ہوئیں- باقی ماندہ پیشگوئیاں بھی اپنے وقت کے مطابق پوری ہوتی جارہی ہیں- کیا یہ اس بات کا بیّن ثبوت نہیں کہ بائبل مُقدّس خدا کا کلام ہے؟

نیز اس کی اثر پزیری ایک عالمگیر حقیقت ہے- بائبل مُقدّس نے ہر زمانے میں ہر قوم کو متاثر کیا ہے- دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو بائبل کے ثمرات سے بہرہ ور نہ ہوئی ہو- جہاں کہیں بائبل پہنچی وہاں کی اقوام کی تقدیر بدل گئی- وہ وحشی قومیں جو ننگِ انسانیت تھیں، بائبل مُقدّس کے سایہ عاطِفت میں آتے ہی مُہذب بن گہیئں اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوگہیئں-

بائبل مُقدّس کی تعلیمات بھی لاثانی ہیں- مثلاً کب کسی نے کہا کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو ؟ لیکن جو بات اِسے سب سے زیادہ ممتاز بناتی ہے وہ راہِ نجات کی پیشکش ہے- اس کتاب میں انسان کی نجات کے منصوبے کو بڑی وضاحت اور قطعیت سے بیان کیا گیا ہے- اِس منصوبے کا آغاز آدم کے گناہ میں گرنے پر ہُئُوا اور المسیح کے کفارہ میں پایہ تکمیل کو پہنچا-

اِن تمام امور سے صاف ظاہر ہے کہ بائبل مُقدّس خدا کا کلام ہے اور ہم تک لاخطا پہنچا ہے- آپ سے درخواست ہے کہ آپ خود بائبل مُقدّس کا مطالعہ کرکے ہمارے دعوے کو جانچئے اور بائبل کی برکات سے فیض یاب  ہویئے-

 

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح | Tags: | Comments (0) | View Count: (22424)
Comment function is not open
English Blog